سوال : ایک صاحب کی زبانی واقعہ سننے کا اتفاق ہوا : ”ایک دن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے اور کچھ حاضرین کو کوئی حدیث بیان کر رہے تھے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو کہنے لگے : ابوہریرہ ! جو بات آپ بیان کر رہے ہیں، جب یہ واقع رونما ہوا اس وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور یہ بات ہرگز ایسے نہ تھی، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غلط بات منسوب کرتے ہوئے خدا کا خوف محسوس نہ ہوا اور اگر آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں (عمر) اس کی گردن مار دیتا “ العياذ بالله
کیا یہ واقعہ صحیح ثابت ہے ؟
ساتھ ہی گفتگو کے دوران ان صاحب نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ ”ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے دریافت کیا : اب آپ بہت سی احادیث روایت کرتے ہیں جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ایسا نہیں تھا، تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : اس وقت مجھے اپنی گردن ماری جانے کا خوف تھا“
کیا یہ واقعات صحیح ہیں ؟ (فخر الحسن گیلانی، راولپنڈی 21 نومبر 2006ء)
الجواب :
الحمد لله رب العالمين و الصلوٰة والسلام عليٰ رسوله الأمين، أما بعد :
یہ واقعہ بےسند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے۔ مجھے کسی کتاب میں یہ واقعہ باسند صحیح نہیں ملا۔ اس بےاصل قصے کے سراسر برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ اس کی دلیل کے طور پر صحیح احادیث سے دو حوالے پیشِ خدمت ہیں :
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
➊ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو کھال پر سوئی سے گود کر لکھتی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور (صحابہ کرام سے ) فرمایا : میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کیا تم میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوئی سے گودنے کے بارے میں کچھ سنا ہے ؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا: اے امیر المؤمنین ! میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا سنا ہے ؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لا تشمن ولا تستوشمن گودنے کا کام نہ کرو اور نہ کسی سے گدواؤ۔ [بخاري : 5946 ]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث کے بارے میں پوچھنا اور اس پر اعتراض نہ کرنا اس کی واضح دلیل ہے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو سچا اور قابل اعتماد سمجھتے تھے۔
➋ ایک دفعہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے کہ وہاں سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گزرے تو انہوں نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کو گوشہ چشم سے (غصے کے ساتھ) دیکھا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تو اس وقت بھی مسجد میں اشعار پڑھتا تھا جب اس میں آپ سے بہتر شخص سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوتے تھے پھر انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ أَجِبْ عَنَّيْ، اَللّٰهُمَّ أَيَّدْهُ بِرُوْحِ القُدُسِ . میری طرف سے جوا ب دو، اے اللہ ! اس (حسان) کی روح القدوس کے ذریعے سے مدد فرما ؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جی ہاں۔ [ صحيح مسلم : 2485/151 6384 ]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
يا أبا هريرة ! أنت كنت ألزمنا لرسول الله صلى الله عليه وسلم و أحفظنا لحديثه
اے ابوہریرہ ! آپ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سب سے زیادہ رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے تھے۔ [سنن الترمذي : 3836 و سنده صحيح، وقال الترمذي : ”هٰذا حديث حسن“ و صححه الحاكم 510، 511/3 ح 6167 و وافقه الذهبي ]
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو (حجۃ الوداع میں) منادی کرنے والا بنا کر بھیجا تھا۔ [صحيح بخاري : 369 ]
↰ اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا مقام تھا۔ یاد رہے کہ اس حج میں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منادی کرنے والا بنا کر بھیجا تھا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصدیق
ایک دفعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث بیان کی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس کے بارے میں پوچھا: گیا پس انہوں نے فرمایا :
صدق أبوهريرة ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔ “ [طبقات ابن سعد 332/4 و سنده صحيح ]
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پڑھائی تھی۔ [التاريخ الصغير للبخاري ص 55 دوسرا نسخه 129، 128/1 و سنده صحيح، ابن وهب رواه عن ابن جريج و الراوي عنه ابن صالح أو ابن عيسيٰ المصري وكلاهما ثقتان ]
سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے میرے اللہ ! ابوہریرہ اور اس کی ماں کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے۔“ [ صحيح مسلم : 2491/158 6396 ]
یہ دعا قبول ہوئی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :” ہر مومن جو میرے بارے میں سن لیتا ہے تو بغیر دیکھے ہی مجھ سے محبت کرتا ہے۔“ [ صحيح مسلم : 2491 نحوالمعنٰي ]
خلاصۃ التحقیق : یہ ساری روایات اور دیگر احادیث صحیحہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسئولہ بالا قصہ بے اصل اور موضوع ہے۔
دوسرا قصہ : گردن ماری جانے کا خوف
یہ قصہ بھی بے اصل اور موضوع ہے۔ اس سلسلے میں چند دیگر روایات کی تحقیق درج ذیل ہے :
➊ محمد بن عجلان سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں ایسی حدیثیں بیان کرتا ہوں، اگر میں عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ حدیثیں بیان کرتا تو آپ میرا سر (مارمار کر) زخمی کر دیتے۔ [البداية و النهاية لابن كثير 110/8، و سيراعلام النبلاء للذهبي 601/2 ]
عبداللہ بن وہب المصری رحمہ الله سے نیچے سند غائب ہونے کے ساتھ ساتھ یہ روایت سخت منقطع ہے۔ دیکھئے الانوار الکاشفہ [ص 155] ابن عجلان مدلس بھی تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین لابن حجر [3/98، المرتبة الثالثة] و مشکل الآثار للطحاوی [100، 101/1 ]
➋ صالح بن ابی الاخضر عن الزہر یعن ابی سلمۃ کی سند سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : ہم عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان نہیں کر سکتے تھے۔ [البداية والنهاية 110/8 ]
یہ سند ضعیف و مردود ہے۔ صالح بن ابی الاخضر : ضعيف يعتبربه ہے۔ [التقريب : 2844 ]
امام زہری مدلس تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین [ 3/102، المرتبة الثالثة] اور شرح معانی الآثار للطحاوی [55/1 باب مس الفرج ]
صالح بن ابی الاخضر سے نیچے والی سند یہاں غائب ہے اور سیر اعلام النبلاء [602/2] میں اس کا صالح سے راوی یزید بن یوسف الرجی ضعیف ہے، لہٰذا یہ سند صالح سے بھی ثابت نہیں ہے۔
➌ بغیر سند کے محمد بن يحيي الذهلي : ثنا عبدالرزاق عن معمر عن الزهري کی سند سے مروی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں یہ حدیثیں بیان نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میری پیٹھ پر کوڑا برسے گا۔ [البداية و النهاية 110/8 ]
یہ روایت کئی وجہ سے مردود ہے :
① امام زہری رحمہ الله نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا۔ ان کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع ہوتی ہے۔ دیکھئے ا لاتحاف المہرۃ لابن حجر [590/15 ] و تحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل للعراقی [ ص 289] و جامع التحصیل [ص 269 ]
② امام زہری رحمہ الله کی تدلیس کے علاوہ امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی رحمہ الله بھی مدلس تھے۔ دیکھئے طبقات المدلسین [2/58، المرتبة الثانية، صحيح يه هے كه وه مرتبهٔ ثالثه سے هيں] و کتاب الضعفاء للعقیلی [110، 111/3 و سنده صحيح ]
صرف یہ روایت ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کثرت سے ) حدیث بیان کرنا چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں (تمہارے قبیلے ) دوس میں بھیج دوں گا۔ [تاريخ ابي زرعة الدمشقي : 1475، وسنده صحيح ]
یہ روایت اس پر محمول ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کثرت سے احادیث بیان کرنا پسند نہیں کرتے تھے تاکہ لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ [ديكهئے البداية و النهاية 110/8 ]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرح دوسرے صحابہ کو بھی منع کیا تھا کہ کثرت سے حدیثیں بیان نہ کریں۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء للذہبی [601/2 ]
اس فاروقی اجتہاد کے مقابلے میں دیگر صحابہ مثلاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ م کثرت سے صحیح احادیث بیان کرتے تھے اور جمہور صحابہ کا یہی طرزِ عمل راجح ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے عظیم حافظے کا ایک صحیح واقعہ
ابوزعیزعہ کاتبِ مروان سے روایت ہے کہ مروان بن الحکم نے ( سیدنا ) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کو بلایا اور (حدیثیں) پوچھنے لگا۔ مروان نے مجھے پردے کے پیچھے بٹھا رکھا تھا تا کہ میں (یہ حدیثیں) لکھوں۔ اگلے سال مروان نے ( سیدنا ) ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کو دوبارہ بلایا اور ان احادیث کے بارے میں پوچھنے لگا۔ اس نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں لکھی ہوئی کتاب کو دیکھتا رہوں۔ میں نے دیکھا کہ ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک حرف کا بھی فرق نہیں کیا۔ [الاشراف عليٰ مناقب الاشراف لابن ابي الدنيا ص 158، 157 ح 311 و سنده حسن، المستدرك للحاكم 510/3 ح 6164 وقال : ”هٰذا حديث صحيح الاسناد“ وقال الذهبي : ”صحيح“ ]
سبحان اللہ ! اللہ نے کیسا عظیم الشان حافظہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا تھا !۔
تنبیہ : حاکم اور ذہبی کی توثیق بذریعہ تصحیح حدیث کے بعد ابوزعیزعہ کو مجہول کہنا غلط ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک عظیم الشان کرامت
قاضی ابوالطیب رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا: اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے (محدث) نے اس مسئلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان بولا: أبوهريرة غير مقبول الحديث ” ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے۔“ قاضی ابوالطیب نے فرمایا : اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا۔ بعد میں یہ سانپ غائب ہوگیا۔ [المنتظم لابن الجوزي 106/17 و سنده صحيح ]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی محبت سے بھر دے۔ آمین
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں کتابیں
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دفاع کے لئے علمائے حق نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن میں سے درج ذیل دو کتابیں انتہائی اہم ہیں :
① دفاع عن ابی ہریرۃ [تصنيف عبد المنعم صالح العلي العزي ]
② الانوار الکاشفۃ [ص 140 تا 228، تصنيف عبدالرحمٰن بن يحييٰ المعلمي رحمه الله ]
فائدہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سات سو سے زیادہ راویوں نے حدیث بیان کی ہے۔ دیکھئے دفاع عن ابی ہریرۃ [ص 273 تا 314]
اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ سو سے زیادہ راویوں نے ان سے روایت بیان کی ہے۔ (24نومبر 2006ء)