سونے کے زیورات کی زکوٰۃ کا نصاب: ساڑھے سات تولہ کی شرعی حیثیت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج ۱ ص ۵۶۳

سوال

سونے کے زیورات کی زکوٰۃ کے بارے میں اس سے پہلے علماء سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ساڑھے سات تولہ سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اب بعض علماء سے سنا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نقدی میں صرف چاندی کی مقدار مقرر کی ہے جو ساڑھے باون تولہ ہے اور ساڑھے سات تولے سونے کی مقدار آنحضرت ﷺ نے مقرر نہیں کی، اس لئے اگر کسی کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر سونا ہو تو وہ زکوٰۃ ادا کرے خواہ ایک تولہ ہی کیوں نہ ہو۔

اس لئے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ کون سی بات درست ہے، کتنا سونا ہو تو زکوٰۃ ادا کرنی پڑتی ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات واضح رہے کہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے۔ یہ نصاب کئی حسن درجے کی احادیث سے ثابت ہے۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:

۱۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَتْ لَكَ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ۔
(رواه ابو داؤد، نیل الاوطار، باب زکاة الذھب والفضة ج ۲ ص:۱۵۶)

السید محمد سابق المصری لکھتے ہیں:
رواہ احمد وابو داؤد والبیھقی وصحه البخاری وحسنة الحافظ ابن حجر العسقلانی۔
(فقہ السنة ج ۱ ص ۲۷۸)

ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو درہم چاندی ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔ اور جب تک بیس دینار سونا نہ ہو تم پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی۔ پھر جب وہ بیس دینار ایک سال تک تمہارے پاس رہیں تو ان پر نصف دینار زکوٰۃ ہے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ کی وضاحت

وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ نِصَابَ الذَّهَبِ عِشْرُونَ دِينَارًا، وَإِلَى ذَلِكَ ذَهَبَ الْأَكْثَرُ وَرُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّ نِصَابَهُ أَرْبَعُونَ، وَرُوِيَ عَنْهُ مِثْلُ قَوْلِ الْأَكْثَرِ۔
(نیل الاوطار، ج ۳ ص ۱۵۸)

یعنی: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ سونے کا نصاب بیس دینار ہے۔ اکثر علماء نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک چالیس دینار ہے، لیکن ان سے دوسرا قول بھی منقول ہے جو اکثر علماء کے موافق ہے۔

امام طاؤس رحمہ اللہ کی رائے اور اس کی تردید

امام طاؤس رحمہ اللہ کے نزدیک جب سونا دو سو درہم چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن درج ذیل حدیث ان کی رائے کو رد کرتی ہے۔

۲۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «كَانَ يَأْخُذُ مِنْ كُلِّ عِشْرِينَ دِينَارًا فَصَاعِدًا نِصْفَ دِينَارٍ، وَمِنَ الْأَرْبَعِينَ دِينَارًا دِينَارًا۔
(سنن الدار قطنی: ج ۲ ص ۹۶)

شمس الحق المحدث لکھتے ہیں:
وفیه ابراھیم بن اسماعیل بن مجمع قال ابن معین لا شیء قال ابو حاتم یکتب حدیثه ولا یحتج به فانه کثیر الوھم۔
(التعلیق المغنی: ج ۲ ص ۹۲)

یعنی: حضرت ابن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیس دینار سونا سے نصف دینار اور چالیس دینار سے ایک دینار بطور زکوٰۃ لیتے تھے۔

۳۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ہدایت

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِينَارًا۔
(سنن الدار قطنی: ج ۷ ص ۲۹)

یعنی: جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو آپ نے فرمایا کہ ہر چالیس دینار سونے میں سے ایک دینار بطور زکوٰۃ وصول کرو۔

اس روایت میں عبداللہ بن شعیب ضعیف ہے، مگر علامہ جمال الدین الحنفی الزیلعی نے اس کی توثیق ذکر کی ہے۔
(نصب الرایۃ: ج ۲ ص ۲۶۴)

۴۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا قول

قال جمھور ایجاب الزکوة فی عشرین دینارا الاقل۔
(المحلی لابن حزم ج ۲ ص ۶۶ باب زکوة الذھب)

یعنی: جمہور علماء امت کے نزدیک سونے کا نصاب بیس دینار ہے، جو کہ ۸۷ گرام اور ۴۷۹ ملی گرام بنتا ہے۔ جب یہ مقدار ایک سال تک کسی کے پاس موجود رہے تو اس میں نصف دینار یعنی ۲ گرام اور ۱۸۷ ملی گرام سونا بطور زکوٰۃ دینا واجب ہے۔

خلاصہ کلام

مذکورہ بالا احادیث اور اقوال سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کا نصاب بیس دینار مقرر فرمایا ہے، جو موجودہ حساب کے مطابق ساڑھے سات تولہ بنتا ہے۔ یہی صحیح اور راجح قول ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے