سورۃ یٰس کے فضائل پر 14 ضعیف و موضوع روایات کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الدعاء، صفحہ 493

سورۃ یٰس کے فضائل سے متعلق روایات کا تحقیقی جائزہ

سوال

کیا یہ روایت صحیح ہے کہ "جو شخص ہر صبح سورۃ یٰس کی تلاوت کرے، تو اس دن کی تمام حاجات پوری ہوں گی”؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت سنن الدارمی: ج2، ص457، حدیث 3421، تحقیق شدہ طبعہ: حدیث 3461 میں موجود ہے:

"عطاء بن أبي رباح (تابعی) قال: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال”

صاحب مشکوٰۃ المصابیح نے بھی اسے حدیث 21277 کے تحت سنن الدارمی سے نقل کیا ہے۔

لیکن یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور "بلغنی” میں فاعل نامعلوم ہے، اس لیے یہ سند غیر معتبر ہے۔

سورۃ یٰس کی فضیلت سے متعلق مرفوع روایات کا تفصیلی جائزہ

درج ذیل تمام روایات ضعیف، مردود یا موضوع ہیں:

"ان لكل شيء قلبا قلب القرآن يس ومن قرأ يس كتب الله له بقراءتها قراءة القرآن عشر مرات”
جامع ترمذی: حدیث 2887 (عن قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ)
تبلیغی نصاب، ص292؛ فضائل قرآن، ص58
ضعف کی وجہ: راوی ہارون ابو محمد "شیخ مجہول” ہے۔
شیخ البانیؒ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔
(الضعیفۃ: ج1، ص202، حدیث 169)
مزید تنقید: امام ابو حاتم رازی کے مطابق اس کا راوی مقاتل بن سلیمان کذاب ہے۔
(علل الحدیث: ج2، ص1652)

"ولا يصح من قبل إسناده ضعيف”
(ترمذی: حدیث 2887)
یہ روایت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے مگر سند ضعیف ہے۔

"ان لكل شيء قلبا وقلب القرآن يس”
کشف الاستار عن زوائد البزار: ج3، ص87، حدیث 2304 (عن عطا عن ابی ہریرہ)
ضعف کی وجہ:
راوی حمید مجہول ہے (حافظ ابن حجر، تقریب التہذیب)
شیخ بزار: عبدالرحمن بن الفضل کی بھی شناخت واضح نہیں
(الضعیفۃ: ج1، ص2-4)

"من قرأ يس في ليلة أصبح مغفورا له”
مسند ابی یعلی: ج11، ص93-94، حدیث 6324
راوی: ہشام بن زیاد (متروک)
(التقریب: ص364، ت7292)

"من قرأ يس في ليلة ابتغاء وجه الله غفر له في تلك الليلة”
دارمی: حدیث 342
راوی حسن بصری، سیدنا ابو ہریرہ سے روایت کر رہے ہیں، مگر ملاقات ثابت نہیں
مدلس راوی، اور عن سے روایت، اس لیے ضعیف

"من قرأ يس ابتغاء وجه الله تعالى غفر له ما تقدم من ذنبه…”
صحیح ابن حبان: موارد الظمآن، حدیث 665
راوی: حسن بصری عن جندب رضی اللہ عنہ
ابوحاتم رازی: "لم يصح للحسن سماع من جندب”
(المرسیل: ص42)

"من قرأ يس ابتغاء وجه الله… فاقرؤوها عند موتاكم”
شعب الایمان للبیہقی: حدیث 2458
راوی: ابو عثمان غیر النہدی (مجہول)، اس کے والد کی بھی شناخت نہیں
روایت مختلف کتب میں مختصراً آئی ہے:
مسند احمد (5/26، 27)
مستدرک الحاکم (1/565)
صحیح ابن حبان (الاحسان: 7/269، حدیث 2991؛ نسخہ محققہ: حدیث 3002)
سنن ابی داود (3121)
سنن ابن ماجہ (1448)
امام دارقطنی: اس روایت کو ضعیف قرار دیا
مسند احمد (4/105) میں ایک ضعیف شاہد بھی ہے

"من قرأ يس في ليلة أصبح مغفورا له”
حلیۃ الأولیاء: ج4، ص130 (عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)
ضعف کی وجہ:
راوی ابو مریم عبدالغفار بن القاسم الکوفی
کذاب اور وضاع تھا
(لسان المیزان: ج4، ص50-51)

"من قرأ يس عدلت له عشرين حجة…”
حلیة الأولیاء: ج7، ص136
راوی: الحارث الاعور عن علی رضی اللہ عنہ
ضعف کی وجہ: شدید ضعیف راوی
ابواسحاق کی تدلیس بھی شامل

"لو وددت أنها في قلب كل إنسان من أمتي، يعني يس”
کشف الاستار: ج3، ص87، حدیث 2305 (عن ابن عباس)
ضعف کی وجہ:
راوی ابراہیم بن الحکم بن ابان ضعیف ہے
(التقریب: ص166)

"من قرأ سورة يس وهو في سكرات الموت… فيموت ريان…”
الوسیط للواحدی: ج3، ص5-9
راوی: یوسف بن عطیہ الصفار (متروک)، ہارون بن کثیر (مجہول)
(تقریب التہذیب: 7872، لسان المیزان: ج6، ص218)

"من قرأ يس فكأنما قرأ القرآن عشر مرات”
شعب الایمان للبیہقی: حدیث 2459
ضعف کی وجہ: راوی حسان بن عطیہ کی مرسل روایت

"سورة يس تدعى في التوراة المنعمة…”
شعب الایمان: حدیث 2465، العقیلی: ج2، ص143، الامالی للشجری: ج1، ص118، تاریخ بغداد: ج2، ص387-388، الموضوعات لابن الجوزی: ص347، ج1
تبلیغی نصاب: ص292، فضائل القرآن: ص58-59
ضعف کی وجہ:
راوی محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر الجدعانی (متروک الحدیث)
دیگر راوی بھی مجہول
امام بیہقی: "وهو منكر”
امام عقیلی نے بھی منکر کہا
دوسری سند میں راوی محمد بن عبد بن عامر السمرقندی (کذاب، چور)

"إني فرضت على أمتي قراءة يس كل ليلة… مات شهيداً”
الامالی للشجری: ج1، ص118
ضعف کی وجہ:
راوی: عمر بن سعد الوقاصی، ابو حمض بن عمر بن حفص، ابو عامر بن عبدالرحیم
تمام کی عدالت نامعلوم

ایک حسن روایت

سنن الدارمی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول مروی ہے:

"من قرأ يس حين يصبح، أعطي يسر يومه حتى يمسي، ومن قرأها في صدر ليله، أعطي يسر ليلته حتى يصبح”
(سنن الدارمی: ج1، ص457، حدیث 3422؛ دوسرا نسخہ: حدیث 3462)

اس روایت کے راوی:
1. عمرو بن زرارہ – ثقہ، ثبت (تقریب التہذیب: 5032)
2. عبدالوہاب الثقفی – ثقہ، آخر عمر میں حافظہ متاثر ہوا، مگر اس تبدیلی کے وقت کوئی روایت نقل نہیں کی
3. راشد بن نجیح الحمانی – صدوق، کبھی کبھار غلطی کرتے تھے (تقریب التہذیب: 1857)
4. شہر بن حوشب – جمہور محدثین نے توثیق کی (حافظ ابن کثیر – مسند الفاروق: ج1، ص228)

نتیجہ: یہ روایت حسن لذاتہ ہے۔
(الحدیث: 17)
ماہنامہ شہادت اسلام آباد، جنوری 2003ء میں بھی اس تحقیق کی تائید موجود ہے۔

خلاصہ

◈ سورۃ یٰس کے فضائل میں جتنی مرفوع روایات منقول ہیں، وہ ضعیف، مردود یا موضوع ہیں۔
◈ البتہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت حسن السند ہے، اور عمل کی بنیاد بن سکتی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1