سورۃ یٰس کی تلاوت اور فضائل؟
سوال : جو شخص ہر صبح سورۃ یٰس کی تلاوت کرتا ہے تو اس کی دن کی تمام حاجتیں پوری ہوں گی۔ اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔ (ملخصاً از مکتوب حبیب اللہ استاد کندھی مغلزئی۔ پشاور )
جواب : یہ روایت سنن الدارمی [ج2ص 457 ح3421 وطبعة محققة ح 3461] میں عطاء بن ابي رباح ( تابعي) قال : بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال کی سند سے موجود ہے اور دارمی ہی سے صاحب مشکوۃ نے [ح 2177 بتحقيقي] نقل کی ہے۔ یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور بلغني کا فاعل نامعلوم ہے۔

سورۃ یٰس کی فضیلت میں درج ذیل مرفوع روایات بھی ضعیف و مردود ہیں۔

إن لكل شئ قلبا و قلب القرآن يٰس و من قرأ يٰس كتب الله له بقرأ تها قراء ة القرآن عشر مرات
[ جامع ترمذي ح 2887 من حديث قتاده عن انس رضى الله عنه و تبليغي نصاب ص 292 فضائل قرآن ص 58]

↰ امام ترمذی اس روایت کے ایک راوی ہارون ابومحمد کے بارے میں فرماتے ہیں : ” شیخ مجہول۔ “
لہٰذا یہ روایت ہارون مذکور کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ [ الضعيفة ج 1ص202ح 169 ]
امام ابوحاتم الرازی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی : مقاتل بن سلیمان كذاب ہے۔ [ علل الحديث ج2ص 56ح 1652]
جبکہ سنن ترمذی و سنن الدارمی [ج2ص456 ح3419] تاریخ بغداد [ج4ص167] میں مقاتل بن حیان صدوق ہے۔ والله اعلم
درج بالا روایت کا ترجمہ جناب زکریا صاحب تبلیغی دیوبندی نے درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے۔
” ہر چیز کے لئے ایک دل ہوا کرتا ہے۔ قرآن شریف کا دل سورۃ یٰس ہے جو شخص سورۃ یٰس پڑھتا ہے حق تعالیٰ شانہ، اس کے لئے دس قرآنوں کا ثواب لکھتا ہے۔“

➋ اس باب میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ والی روایت کے بارے میں امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ولا يصح من قبل إسناده و إسناده ضعيف [ ترمذي : 22887 ]
إن لكل شئي قلبا و قلب القرآن يٰس
[كشف الاستار عن زوائد البزارج 3ص87ح2304 من حديث عطاء عن أبى هريرة رضي الله عنه ]

↰ اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
وحميد هذا مجهول كما قال الحافظ فى التقريب و عبدالرحمن بن الفضل شيخ البزارلم أعرفه [الضعيفه ج1ص204 ]
یعنی اس کا (بنیادی) راوی حمید ( المکی مولیٰ آل علقمۃ /تفسیر ابن کثیر 3؍570) مجہول ہے جیسا کہ حافظ (ابن حجر) نے تقریب التھذیب میں کہا ہے اور بزار کے استاد : عبدالرحمن بن الفضل کو میں نے نہیں پہچانا۔

من قرأ يٰس فى ليلة أصبح مغفورا له . . الخ
[مسند ابي يعلي ج 11ص 93، 94ح 6324 وغيره من طريق هشام بن زياد عن الحسن قال : سمعت اباهريرة به ]

↰ اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے۔
ہشام بن زیاد متروک ہے [تقريب ص 364ت : 7292 ]

من قرأ يٰس فى ليلة ابتغاء وجه الله غفر له فى تلك الليلة
[ الدارمي ح 3420 وغيره ]

اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
حسن بصری کی سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔

من قرأ يٰس فى ليلة ابتغاء وجه الله غفر له
[صحيح ابن حبان : موارد الظمآن ح 665 وغيره عن الحسن البصري عن جندب رضى الله عنه به ]

↰ اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
◈ ابوحاتم رازی نے کہا:
لم يصح للحسن سماع من جندب [ المراسيل ص42] نیز دیکھئے حدیث سابق : 5

من قرأيٰس ابتغاء وجه الله تعالىٰ غفرله ما تقدم من ذنبه فاقرؤ و ها عند موتاكم
[ البيهقي فى شعب الايمان ح 2458من حديث معقل بن يسار رضي الله عنه ]

↰ اس کی سند ایک مجہول راوی : ابوعثمان غیر النہدی اور اس کے باپ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
یہ روایت مختصراً مسند احمد [5؍26، 27] مستدرک الحاکم [ 1؍565] اور صحیح ابن حبان [الاحسان7؍269ح 2991 و نسخه محققه ح 3002] و سنن ابی داؤد [3121] و سنن ابن ماجہ [1448] میں موجود ہے، اس حدیث کو امام دارقطنی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مسند احمد [ 4؍105]
میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔

من قرأيٰس فى ليلة أصبح مغفورا له
[ حلية الاولياء4/130من حديث عبدالله بن مسعود رضي الله عنه ]

↰ اس کی سند ابومریم عبدالغفار بن القاسم الکوفی کی وجہ سے موضوع ہے۔
ابومریم مذکور کذاب وضاع تھا۔ دیکھئے لسان المیزان [ج4ص50، 51 ]

من قرأ يٰس عدلت له عشرين حجة ومن كتابها ثم شربها أدخلت جوفه ألف يقين و ألف رحمة و نزعت منه كل غل وداء
[حلية الاولياءج7ص136]

من حديث الحارث (الأعور) عن على به
’’ یہ روایت حارث اعور کے شدید ضعف (مع تدلیس أبی اسحاق) کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔ “

لوددت إنها فى قلب كل إنسان من أمتي يعني يٰس
[البزار : كشف الاستار3؍87ح2305من حديث ابن عباس ]

↰ اس کا راوی ابراھیم بن الحکم بن ابان ضعیف ہے۔ [تقريب : 166 ]

من قرأ سورة يس وهو فى سكرات الموت أو قريب عنده جاء ه خازن الجنة بشربة من شراب الجنة فسقاها إياه وهو على فراشه فيشرب فيموت ريان ويبعث ريان ولا يحتاج إلى حوض من حياض الأنبياء [ الوسيط للواحدي3؍509 ]

↰ یہ روایت موضوع ہے۔
یوسف بن عطیہ الصفار متروک [ ديكهئے تقريب التهذيب : 7872 ]
اور ہارون بن کثیر مجہول ہے دیکھئے لسان المیزان [ج6ص218 ]

من قرأيس فكأنما قرأ القرآن عشر مرات
[ شعب الايمان للبيهقي ح2459 ]

↰ یہ روایت حسان بن عطیہ کی وجہ سے مرسل ہے، اسماعیل بن عیاش مدلس ہے۔ [طبقات المدلسين : 68 ؍3 ]

سورة يٰس تدعي فى التوراة المنعمة . . . الخ
[شعب الايمان ح2465 و الضعفاء للعقيلي ج 2ص143، الامالي للشجري ج 1ص118تاريخ بغداد للخطيب ج 2ص387، 388و الموضوعات لابن الجوزي ص347ج او تبليغي نصاب ص292، 293 فضائل قرآن ص 58، 59 ]

↰ اس روایت کی سند موضوع ہے۔
محمد بن عبدالرحمن بن ابی بکر الجد عانی متروک الحدیث ہے اور دوسرے کئی راوی مجہول ہیں۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وھو منکر
◈ امام عقیلی رحمہ اللہ نے بھی اسے منکر قرار دیا ہے۔
اس کی ایک دوسری سند تاریخ بغداد اور الموضوعات لابن الجوزی میں ہے۔
اس کا راوی محمد بن عبد بن عامر السمر قندی کذاب اور چور تھا۔

إني فرضت على أمتي قراء ة يس كل ليلة فمن دام على قراء تها كل ليلة ثم مات مات شهيدا [ الأ مالي للشجري ج 1ص118 ]

↰ یہ روایت موضوع ہے۔
اس کے کئی راویوں مثلاً عمر بن سعد الو قاصی، ابوحمض بن عمر بن حفص اور ابوعا مر محمد بن عبدالرحیم کی عدالت نامعلوم ہے۔
خلاصہ : خلاصہ یہ ہے کہ سورت یا سین کی فضیلت کی تمام مرفوع روایات ضعیف و مردود ہیں۔

◈ امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
حدثنا عمر و بن زرارة : حدثنا عبدالوهاب : حدثنا راشد أبو محمد الحماني عن شهر بن حوشب قال : قال ابن عباس : من قرأ يٰس حين يصبح، أعطي يسر يومه حتي يمسي، ومن قرأها فى صدر ليلة أعطي يسر ليلته حتي يصبح
ہمیں عمر و بن زرارہ نے حدیث بیان کی، ہمیں عبدالوہاب الثقفی نے حدیث بیان کی، ہمیں راشد ابومحمد الحمانی نے حدیث بیان کی، وہ شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت یاسین پڑھے تو اسے شام تک آسانی عطا ہو گی اور جو شخص رات کے وقت یاسین پرھے تو اسے صبح تک آسانی عطا ہو گی۔ (یعنی اس کے دن و رات آرام و راحت سے گزریں گے ) [ سنن الدارمي1؍457ح 3422دوسرا نسخه : 3462و سنده حسن ]
↰ اس روایت کے راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
① عمر و بن زرارہ : ثقة ثبت [تقريب التهزيب : 5032 ]
② عبدالوھاب الثقفی : ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين [التقريب : 4261]
لكنه ما ضر تغيره حديثه فإنه ماحدث بحديث فى زمن التغير [ميزان الاعتدال 2؍681 ]
③ راشد بن نجیح الحمانی : صدوق ربما أخطأ [تقريب التهذيب : 1857]
وحسن له البوصيري [ زوائد ابن ماجه : 3371]
یہ حسن الحدیث راوی ہے۔
④ شہر بن حوشب مختلف فیہ راوی ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے۔ [كما حققته فى كتابي : تخريج النهاية فى الفتن و الملاحمص119، 120]
ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی ایک روایت کو حسن کہتے ہیں۔ [مسند الفاروق ج 1ص 228]
لہٰذا ہماری تحقیق کے مطابق یہ راوی حسن الحدیث ہے۔ والله اعلم
خلاصہ یہ کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے