سورۃ النساء آیت 14: کیا مواحد مسلمان بھی ہمیشہ جہنم میں رہے گا؟
تحریر: محمد ندیم ظہیر بلوچ

سورۃ النساء کی آیت نمبر 14 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے گا، اسے آگ میں داخل کیا جائے گا جہاں وہ "خالدًا فیہا” یعنی ہمیشہ رہے گا۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ شبہہ لیتے ہیں کہ کیا ایک مسلمان بھی — اگرچہ موحد ہو لیکن کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہو — ہمیشہ جہنم میں رہ سکتا ہے؟ اس مضمون میں ہم قرآن، حدیث، لغوی تحقیق اور مفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس اشکال کا جواب پیش کریں گے۔

آیت کا اصل مفہوم اور کافروں پر اس کا اطلاق

عربی عبارت:
وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ
(النساء: 14)

ترجمہ:
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے، وہ اسے آگ میں داخل کرے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والا ہوگا، اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔

وضاحت:
مفسرین کرام جیسے امام طبری، امام قرطبی اور حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ نے اس آیت کی وضاحت میں لکھا کہ یہ وعید اصل میں ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی نافرمانی کو کفر کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص نماز کی فرضیت کا ہی انکار کر دے یا وراثت کے احکام کا انکار کر دے۔ یہ کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔

خلود کا لغوی مفہوم اور ایمان والوں کے لیے اس کا مطلب

عربی لغت:
الخُلُودُ: البقاء فيها
(العین، ج4، ص231)

ترجمہ:
خلود کا مطلب ہے کسی چیز کا باقی رہنا۔

عربی لغت کی ایک اور وضاحت:
«كل ما يتباطا عنهُ التغيُّر و الفساد، تصفهُ العرب بالخُلُود كقولهم للايام خَوَالد و ذلك لطول مكثها لا للدوام».
(أقرب الموارد، ج2، ص86)

ترجمہ:
ہر وہ چیز جو فوراً ختم نہ ہو، اس کے بارے میں عرب کہتے ہیں کہ یہ "خلود” ہے۔ دنوں کو بھی "خوالد” کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک عرصے تک باقی رہتے ہیں، نہ کہ ہمیشہ۔

وضاحت:
عربی زبان میں "خلود” صرف ابدی ہمیشہ کے لیے نہیں بولا جاتا بلکہ طویل قیام کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ اسی لیے اگر یہ آیت کبیرہ گناہگار مسلمانوں پر بھی منطبق ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جہنم میں ایک لمبے عرصے تک رہیں گے، مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں۔

قرآن سے وضاحت

عربی عبارت:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ
(النساء: 48)

ترجمہ:
بیشک اللہ یہ نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دیتا ہے۔

وضاحت:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کفر و شرک کے علاوہ باقی سب گناہ اللہ کے اختیار میں ہیں، وہ چاہے تو معاف فرما دے اور چاہے تو سزا دے کر مومن کو جہنم سے نکال لے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کفر و شرک ہی وہ گناہ ہیں جن پر ہمیشہ جہنم میں رہنا لازم ہے۔

خلود کی دو قسمیں

عربی عبارت:
فَإِنَّ الْخُلُودَ خُلُودَانِ:
خُلُودٌ دَائِمٌ أَبَدًا لَا يَنْتَهِي، وَهَذَا هُوَ خُلُودُ الْكُفَّارِ فِي النَّارِ
خُلُودٌ طَوِيلٌ مُؤَقَّتٌ يَنْتَهِي، وَهَذَا هُوَ خُلُودُ الْعُصَاةِ مِنْ أَهْلِ الْإِيمَانِ فِي النَّارِ

ترجمہ:
خلود دو قسم کا ہوتا ہے:

  1. ایسا خلود جو ہمیشہ ہمیشہ رہے اور ختم نہ ہو، یہ کفار کے لیے ہے۔

  2. ایسا خلود جو ایک طویل عرصے کے لیے ہو لیکن آخرکار ختم ہو جائے، یہ ایمان والوں کے گناہگاروں کے لیے ہے۔

وضاحت:
اہل لغت اور مفسرین کے مطابق خلود کے یہ دو درجے ہیں، اور یہی فرق ایمان والے اور کافر کے انجام میں ہے۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہے گا جبکہ مسلمان گناہگار سزا کے بعد جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

نتیجہ

اس تحقیق سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آیت کے الفاظ "خَالِدًا فِیهَا” کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مومن بھی ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ یہ وعید کافروں کے لیے ہے، جبکہ مسلمان اگر کبیرہ گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جائے بھی تو وہ ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک طویل عرصے کے لیے ہوگا اور پھر بالآخر جنت میں داخل ہو گا۔ اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ یہی ہے کہ ہر ایمان والا، چاہے وہ گناہگار ہو، آخرکار جنتی ہے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے