سورۃ البینہ کی آیات پر مستشرقین کے اعتراضات

مغربی مستشرقین اور عیسائی مشنریوں کا دعویٰ

مغربی مستشرقین، خصوصاً ثیودور نولڈکی (Theodor Nöldeke)، اور عیسائی مشنری قرآن مجید پر مختلف الزامات لگاتے ہیں۔ ان میں سے ایک الزام یہ ہے کہ سورۃ البینہ کی کچھ آیات "ضائع” ہو گئیں۔ نولڈکی نے اپنی کتاب
"Geschichte des Qorans” (Leipzig, 1909, Vol. 1, Page 242)
میں جامع ترمذی کی ایک حدیث کے ذریعے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سورۃ البینہ کی کچھ آیات شامل تھیں لیکن وہ قرآن کا حصہ نہیں رہیں۔

حدیث کا متن

نولڈکی نے جامع ترمذی (حدیث نمبر: 3898) کی ایک روایت کا حوالہ دیا، جس میں حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں سورۃ البینہ سنائی اور اس کے ساتھ یہ الفاظ بھی کہے:

"إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ”
’’بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف حنیفیت اور اسلام ہے، نہ یہودیت، نہ نصرانیت اور نہ ہی مجوسیت۔ جو کوئی بھی بھلائی کرے گا، اس کی بھلائی ضائع نہیں کی جائے گی۔‘‘
(جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3898)

مستشرقین کے دعوے کے بنیادی نکات

    • یہ الفاظ "إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ…” اور "لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ…” کو قرآن مجید کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔

’’بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف حنیفیت (خالص توحید) اور اسلام ہے۔‘‘ ’’ اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی ایک وادی ہو۔‘‘

  • دعویٰ کیا گیا کہ یہ آیات قرآن مجید کی سورۃ البینہ کا حصہ تھیں لیکن بعد میں "ضائع” ہو گئیں۔

حقیقت: یہ الفاظ قرآن کا حصہ نہیں ہیں

1. حدیث کی وضاحت

یہ دونوں جملے قرآن مجید کا حصہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی جانب سے سورۃ البینہ کی تفسیر کے طور پر بیان کیے گئے تھے۔ اس کی وضاحت درج ذیل دلائل سے ہوتی ہے:

الف) مستدرک حاکم کی روایت

مستدرک حاکم میں حضرت ابی بن کعبؓ کی یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:
"وَمِنْ نَعْتِهَا…”
’’اور اس کی صفتوں میں سے ہے۔‘‘
(مستدرک حاکم، جلد 2، صفحہ 244، حدیث نمبر: 2889)

یہ الفاظ واضح کرتے ہیں کہ یہ جملے قرآن مجید کا حصہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے سورۃ البینہ کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمائے۔

ب) حدیث کے الفاظ میں فرق

    • جامع ترمذی میں: "إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ…”

’’بے شک دین کی حقیقت اللہ کے نزدیک۔‘‘

    • مسند احمد میں: "إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ…”

’’بے شک دین اللہ کے نزدیک۔‘‘

  • ایک اور روایت میں: "إِنَّ ذَلِكَ الدِّينَ الْقَيِّمَ…”

’’بے شک یہی سیدھا دین ہے۔‘‘

قرآنی آیات ہمیشہ یکساں الفاظ میں نقل کی گئی ہیں، جبکہ ان احادیث میں الفاظ کے مختلف ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملے قرآن کا حصہ نہیں تھے۔

2. الفاظ کا غیر قرآنی انداز

  • ان جملوں میں الفاظ جیسے "ذَاتَ الدِّينِ”، "الْيَهُودِيَّةُ”، "النَّصْرَانِيَّةُ” استعمال ہوئے ہیں، جو کہ قرآن کے اسلوب میں نہیں پائے جاتے۔
  • قرآن مجید کی زبان اور ترتیب انتہائی منفرد ہے، جو ان جملوں سے مختلف ہے۔

3. تفسیر کے طور پر بیان

یہ جملے دراصل سورۃ البینہ کی آیت نمبر 5 کی وضاحت ہیں:

"وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ…”
’’اور انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا مگر یہ کہ اللہ کی عبادت کریں، خالص کرتے ہوئے اس کے لیے دین کو، اور یکسو ہو کر۔‘‘
(سورۃ البینہ: 5)

یہ جملے دین کی وضاحت اور زکوٰۃ کی تاکید کے لیے کہے گئے تھے۔

➋ احادیث میں فرق اور ترتیب کا اختلاف

دین کے متعلق الفاظ

    • جامع ترمذی میں: "الحَنِيفِيَّةُ المُسْلِمَةُ…”

"خالص اور مسلمانی پر مبنی دین”

    • مسند احمد میں: "الحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ…”

"حنیفیت (خالص توحید)، جو شرک سے پاک ہے۔”

    • کتاب الاحادیث المختارہ میں: "الحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ…”

"حنیفیت (خالص توحید) جو آسان اور نرم ہے۔”

مال کے متعلق الفاظ

    • جامع ترمذی میں: "لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا…”

"اگر آدم کے بیٹے کے پاس ایک وادی ہو۔”

    • مسند احمد میں: "لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ…”

"اگر آدم کے بیٹے کے پاس دو وادیاں ہوں۔”

    • مستدرک حاکم میں: "وَلَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا…”

"اور اگر آدم کا بیٹا ایک وادی کا سوال کرے۔”

الفاظ اور ترتیب کے اختلافات اس بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ یہ جملے قرآن کا حصہ نہیں۔

➌ ممکنہ سوالات کے جوابات

سوال: "وَقَرَأَ فِيهَا” کے الفاظ کا مطلب کیا ہے؟

یہ الفاظ راوی کا اپنا بیان ہیں، جیسا کہ مستدرک حاکم کی روایت (2889) میں وضاحت ہے کہ یہ الفاظ سورۃ البینہ کی وضاحت کے طور پر کہے گئے۔

سوال: کیا یہ جملے سورۃ البینہ کا حصہ ہو سکتے ہیں؟

نہیں، کیونکہ ان کے الفاظ مختلف احادیث میں بدلتے ہوئے آئے ہیں اور ان کا اسلوب قرآنی نہیں۔

سوال: احادیث میں سورۃ البینہ کی صرف ابتدائی آیات کیوں ذکر ہوئیں؟

سورۃ کا نام ذکر کرنے کے بجائے ابتدائی الفاظ کا ذکر کرنے کا طریقہ عام تھا۔ اس سے مراد پوری سورۃ ہوتی تھی۔

➍ خلاصہ

  • یہ جملے کبھی قرآن کا حصہ نہیں تھے۔
  • یہ رسول اللہ ﷺ نے سورۃ البینہ کی آیات کی تفسیر کے طور پر بیان کیے تھے۔
  • احادیث کے الفاظ کا فرق، غیر قرآنی اسلوب، اور ترتیب کا اختلاف اس بات کا واضح ثبوت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1