سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں قرآن و حدیث سے ثابت دلائل
یہ اقتباس ڈاکٹر حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض*مستحب* یا مکروہ تحریمی* سے ماخوذ ہے۔

سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی احادیث میں صریح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ ہر نماز کی قبولیت کے لیے سورۂ فاتحہ کی قراءت شرط ہے۔ ہم چند احادیث یہاں ذکر کرتے ہیں:

① حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
”جس نے سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کی ، اس کی کوئی نماز نہیں۔“
(صحيح البخاری : 756 ، صحیح مسلم : 394)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ عالیشان میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراءت کے بغیر کسی کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ یہاں کلمہ من اور کلمہ صلاة عام ہے، یعنی نماز پڑھنے والا جو بھی ہو اور وہ کوئی بھی نماز پڑھ رہا ہو تو اسے سورہ فاتحہ کی قراءت کے بغیر شرف قبولیت حاصل نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمومی فرمان سے کسی بھی شخص یا نماز کو مستثنی نہیں کیا ۔ لہذا اس عمومی فرمان سے بعض اشخاص اور بعض نمازوں کو خاص کرنا درست نہیں۔
بعض اشخاص (مقتدیوں) کی تخصیص کا معاملہ تو فاتحہ خلف الامام کی بحث سے تعلق رکھتا ہے، اس کی تفصیل اس موضوع کی کتب میں ملے گی، البتہ اس حدیث سے کچھ نمازوں کی تخصیص کا مسئلہ ہمارے اسی موضوع سے متعلق ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالعموم ہر نماز کے لیے سورہ فاتحہ کی قراءت کو قبولیت کی شرط قرار دیا ہے۔

جنازہ بھی نماز ہے

ظاہر ہے کہ جنازہ بھی نماز ہے۔ کوئی مسلمان جنازہ کے نماز ہونے سے انکاری نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کو کون جھٹلا سکتا ہے؟
فرمانِ باری تعالی ہے :
﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ﴾
”(اے نبی!) آپ ان (منافقین) میں سے کسی مرنے والے پر نماز جنازہ ادا کریں نہ ہی ان میں سے کسی کی قبر پر (دعا کے لیے ) کھڑے ہوں۔“
(9-التوبة:84)
نیز محدثین کرام نے کتب حدیث میں اور فقہائے کرام نے کتب فقہ میں نماز جنازہ کے لیے صلاة الجنازة یعنی نماز جنازہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جیسا کہ حدیث اور فقہ کا ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے۔ تسلی کے لیے تمام ان کتب حدیث کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے جو فقہی تبویب کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔
نیز یہ کتب فقہ بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں :
الأشباه والنظائر المبسوط للسرخسي، الهداية للمرغيناني البحر الرائق بدائع الصنائع فتح القدير، مراقي الفلاح الفتاوى الهندية المعروف فتاوي عالمگيري و غيرها
ہم نے صرف علمائے احناف کی کتابیں ذکر کی ہیں، کیونکہ وہی جنازہ کے نماز ہونے میں متذبذب ہیں۔ یہ بحث مفصل طور پر آئندہ صفحات میں آئے گی۔ ان شاء اللہ
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتب میں جنازے کے لیے نماز کی نیت کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری کی عبارت ملاحظہ ہو:
وفي صلاة الجنازة ينوي الصلاة لله تعالى والدعاء للميت
نماز جنازہ میں آدمی اللہ تعالیٰ کے لیے نماز اور میت کے لیے دعا کی نیت کرے۔
(الفتاوى الهندية: 66/1)
یہی بات الاشباہ والنظائر وغیرہ میں بھی درج ہے۔
جب یہ بات مسلم ہے کہ جنازہ بھی نماز ہے تو بزبانِ نبوت اس کی قبولیت کے لیے سورۃ فاتحہ کی قراءت شرط ہے۔

فقہائے کرام اور حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ

امام بخاری رحمہ اللہ (256 ھ ) کی فقاہت میں کس مسلمان کو شبہہ ہے؟ آئیے ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اس حدیث کی روشنی میں کیا فقہی رائے قائم کی ہے، اس حدیث پر ان کی تبویب یوں ہے :
باب وجوب القرائة للإمام والمأموم فى الصلوات كلها، فى الحضر والسفر، وما يجهر فيها وما يخافت.
اس بات کا بیان کہ امام اور مقتدی کے لیے تمام نمازوں میں، خواہ وہ حضر میں ہوں یا سفر میں ،سری ہوں یا جہری قراءت ضروری ہے۔
(صحیح البخاری، قبل الحديث : 756)
امام ترمذی رحمہ اللہ (279ھ) بھی ایک مشہور فقیہ ہیں۔ ان کی کتاب جامع ترمذی کے بارے میں معروف ہے کہ وہ حدیث، اصول حدیث ، علل حدیث، اسماء الرجال اور دیگر علوم حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ الحدیث سے بھی لبریز ہے۔ اس حدیث پر امام ترمذی رحمہ اللہ کا تبصرہ یہ ہے :
حديث عبادة حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم؛ منهم عمر بن الخطاب وعلي بن أبى طالب وجابر بن عبد الله وعمران بن حصين وغيرهم، قالوا : لا تجزى صلاة إلا بقراءة فاتحة الكتاب ….، وبه يقول ابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق .
سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس پر اکثر اہل علم صحابہ کرام کا عمل ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ وغیر ہم ہیں ، ان سب کا کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراءت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ امام عبد اللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ بھی اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔
(جامع الترمذي، تحت الحديث : 247)
یہاں پر منصف مزاج قارئین کے لیے ہم حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (456) کی بالکل صریح عبارت بھی نقل کیے دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں :
أما قراءة أم القرآن فلأن رسول الله صلى الله عليه وسلم سماها صلاة بقوله :صلوا على صاحبكم، وقال عليه السلام : لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن
رہی (نماز جنازہ میں ) سورہ فاتحہ کی قراءت تو وہ اس لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ( جنازہ) کو یہ فرما کر نماز کا نام دیا ہے کہ : صلوا على صاحبكم ( تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ ادا کرو)، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن (اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کی)۔
(المحلى بالآثار : 129/5)
ایک مقام پر حافظ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والعجب أنهم أصحاب قياس، وهم يرون أنها صلاة، ويوجبون فيها التكبير واستقبال القبلة والإمامة للرجال
والطهارة والسلام، ثم يسقطون القراءة، فإن قالوا : لما سقط الركوع والسجود والجلوس سقطت القرائة، قلنا : ومن أين يوجب هذا القياس دون قياس القرائة على التكبير والتسليم، بل لو صح القياس لكان قياس القرائة على التكبير والتسليم، لأن كل ذلك ذكر باللسان، أولى من قياس القرائة على عمل الجسد، ولكن هذا علمهم بالقياس والسنن .

تعجب تو اس بات پر ہے کہ وہ (احناف) اصحاب القیاس (اصحاب الرائے ) ہیں اور وہ جنازہ کو نماز بھی سمجھتے ہیں، نیز (عام نماز کی طرح) اس میں تکبیر، استقبال قبلہ، مردوں کی امامت طہارت اور سلام کو بھی واجب قرار دیتے ہیں لیکن پھر اس سے قراءت کو ختم بھی کرتے ہیں ! اگر وہ کہیں کہ جب رکوع ، سجدہ اور تشہد ختم ہو گیا ہے تو قراءت بھی ختم ہوگئی ہے۔ ہم کہیں گے کہ قراءت کو تکبیر اور سلام پر قیاس کرنا چھوڑ کر یہ ( تکبیر کا رکوع سجدہ اور تشہد پر ) قیاس کیسے واجب کیا جا رہا ہے؟ اگر قیاس درست تھا تو قراءت کو جو زبان کا ذکر ہے، اس رکوع و سجود پر قیاس نہ کیا جاتا جو جسم کا عمل ہے، بلکہ اسے تکبیر اور سلام پر قیاس کیا جاتا، کیونکہ قراءت بھی زبان کا ذکر ہے اور تکبیر اور سلام بھی زبان کا ذکر ہے۔ لیکن ( کیا کریں کہ) انہیں قیاس اور سنن کا بس اتنا ہی علم ہے۔ (المحلی : 131/5)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی صحیح بخاری کی شرح میں اس قیاسی کاوش کو بالکل بودا قرار دیتے ہوئے اس کا رد کیا ہے۔(فتح الباري لابن حجر : 204/3)
نیز امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (463 ھ ) کا فرمان بھی ملاحظہ فرمائیں :
واحتج داود فى هذا الباب بقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ، وهى صلاة عند جميعهم، لا تجوز إلى غير القبلة ولا بغير وضوء
امام داود رحمہ اللہ (297 ھ ) نے (اس نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی فرضیت کے ) سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے کہ : لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب (جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں ) اور جنازہ تو سب کے نزدیک نماز ہے، اسے جہت قبلہ اور وضو کے بغیر ادا کرنا جائز نہیں۔
(الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار : 42/3)
امام بیہقی رحمہ اللہ (458 ھ ) فرماتے ہیں:
هو على العموم .
حدیث عبادہ بن صامت عام ہے۔
(الخلافیات بين الإمامين الشافعي وأبي حنيفة وأصحابه : 239/4)
علامہ صنعانی رحمہ اللہ (1182ھ) فرماتے ہیں:
واستدل للوجوب بأنهم اتفقوا أنها صلاة، وقد ثبت حديث لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب، فهي داخلة تحت العموم، واخراجها منه يحتاج إلى دليل
جنازہ میں فاتحہ کے وجوب پر استدلال یوں کیا گیا ہے کہ جنازہ بالا تفاق نماز ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے کہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں، چنانچہ جنازہ بھی عموم میں داخل ہے، جنازہ کو اس کے عموم سے خارج کرنا محتاج دلیل ہے۔ (سبل السلام :487/1)
معلوم ہوا کہ یہ ہمارا کوئی نیا دعویٰ نہیں، بلکہ فقہائے کرام بھی یہی فرما رہے ہیں کہ اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ضروری قرار پاتی ہے۔ فریق ثانی سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ان فقہائے کرام کے نام بھی شمار کروا دیں جنہوں نے کہا ہو کہ اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کی دلیل لینا غلط ہے۔
مذکورہ تمام فقہائے کرام کے نزدیک حدیث عبادہ نماز جنازہ سمیت سب نمازوں کو شامل ہے۔ اگر کسی شخص کا یہ دعوی ہے کہ نماز جنازہ اس سے مستثنی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس دعوئی پر دلیل پیش کرے۔ اگر ہمارے پاس صرف یہی حدیث ہوتی تو یہی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے فرض ہونے کے ثبوت میں کافی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مبارک عمل سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ثابت ہے، جس کی تفصیل فصل دوم میں پیش کی جارہی ہے۔ اس کے برعکس رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت سے ممانعت کے حوالے سے کچھ ثابت نہیں۔

② حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن؛ فهي خداج
”جو بھی شخص کوئی بھی ایسی نماز ادا کرے، جس میں اس نے سورہ فاتحہ کی قراءت نہ کی ہو، تو وہ ناقص (نامکمل اور باطل ) ہے۔“
(صحيح مسلم : 395)
کتنی صراحت ہے فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کہ کوئی بھی شخص، کوئی بھی نماز بغیر سورۂ فاتحہ کی قراءت کے پڑھے تو وہ نا قابل قبول ہے۔ جب جنازہ بھی نماز ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سورہ فاتحہ کی قراءت چھوڑ دینے کی وجہ سے ضائع ہو جائے گی۔

③ حدیث عبد اللہ بن عمر و علی رضی اللہ عنہما

سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب؛ فهي خداج
”ہر وہ نماز، جس میں سورت فاتحہ کی قراءت نہ کی جائے، وہ ناقص(نامکمل اور باطل ) ہے۔“
(سنن ابن ماجه : 841 ، القرائة خلف الإمام للبخاري : 15، وسنده صحيح)
ہر نماز میں نماز جنازہ بھی شامل ہے، لہذا سورہ فاتحہ کی قراءت اس کی قبولیت کے لیے بھی شرط ہے۔

④ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا صلاة إلا بقراءة .
”قراءت کے بغیر کوئی نماز نہیں۔“
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد نے پوچھا کہ اگر میں سورہ فاتحہ سے زائد کچھ بھی نہ پڑھوں تو ؟ فرمایا: زائد پڑھ لو تو بہتر ہے اور اگر سورہ فاتحہ پر ہی اکتفا کر لو تو وہی کافی ہے۔(صحیح مسلم : 396)
یہ فرمانِ رسالت بھی بالکل واضح ہے کہ ہر نماز میں قراءت فرض ہے، جنازہ بھی بالا اتفاق نماز ہے تو بغیر دلیل شرعی کے اسے قراءت کے عمومی حکم سے نکالنا جائز نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے