سورہ فاتحہ کے بارے میں اعتراض کا جواب
سورہ فاتحہ کی اہمیت
سورہ فاتحہ قرآن کا آغاز ہے اور اس کی تلاوت ہر مسلمان دن میں کئی بار نماز میں کرتا ہے۔ یہ ایک متفقہ حقیقت ہے کہ سورہ فاتحہ قرآن کا حصہ ہے۔
ابن مسعودؓ کا بیان
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے واضح طور پر سورہ فاتحہ کو قرآن کا حصہ قرار دیا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ
’’اور یقیناً ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی (آیات) اور عظیم قرآن عطا فرمایا ہے۔‘‘
ابن مسعودؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
"سبعاً من المثانی” سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔
(در منثور، جلد 5، صفحہ 94، دارالفکر، بیروت)
مصحف میں نہ لکھنے کی وضاحت
ابن مسعودؓ نے اپنے مصحف میں سورہ فاتحہ نہ لکھنے کی وجہ خود بیان کی۔ امام ابوبکر الانباریؒ کے مطابق، ابن مسعودؓ نے فرمایا:
"اگر میں سورہ فاتحہ لکھتا تو اسے ہر سورت کے ساتھ لکھتا۔”
اس کا مطلب یہ تھا کہ نماز میں سورہ فاتحہ ہر سورت سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس لیے انہوں نے اسے نہ لکھ کر مسلمانوں کے حافظے پر بھروسہ کیا۔
(تفسیر القرطبی، جلد 1، صفحہ 4)
معوذتین (سورہ الفلق اور الناس) کے بارے میں اعتراض کا جواب
قرآن کی حفاظت اور قرات متواترہ
قرآن کی حفاظت بنیادی طور پر حفظ کے ذریعے ہوئی ہے، اور قرات متواترہ اس کے سب سے مستند ذرائع ہیں۔ تمام متواتر قراتوں میں معوذتین موجود ہیں، اور ان میں سے چار قراتیں براہ راست ابن مسعودؓ کے ذریعے رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی ہیں:
- قرات عاصم
- قرات حمزہ
- قرات کسائی
- قرات خلف
(النشر فی قرات العشر، ابن جزری، جلد 1، صفحات 155، 165، 172، 185)
ان قراتوں میں سورہ فاتحہ اور معوذتین موجود ہیں، جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ابن مسعودؓ انہیں قرآن کا حصہ سمجھتے تھے۔
ابن مسعودؓ کا معوذتین کی اہمیت پر بیان
کنز العمال میں روایت ہے:
"ابن مسعودؓ نے فرمایا: دو سورتیں (معوذتین) زیادہ پڑھا کرو، اللہ تمہیں آخرت میں اونچا مقام دے گا۔”
(کنز العمال، حدیث 2743)
اعتراض کی بنیاد پر روایات کا جائزہ
حضرت عاصم اور زر کی روایت
بعض روایات کے مطابق، ابن مسعودؓ نے معوذتین کو اپنے مصحف میں شامل نہیں کیا۔
(مسند احمد، حدیث نمبر 21186)
لیکن:
- کسی سورت کو مصحف میں نہ لکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے قرآن کا حصہ نہ سمجھا جائے، جیسا کہ سورہ فاتحہ کے معاملے میں وضاحت ہو چکی ہے۔
- جب یہ بات دوسرے صحابہ کو معلوم ہوئی تو کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ اگر ابن مسعودؓ نے معوذتین کو قرآن کا حصہ نہ مانا ہوتا تو صحابہ ضرور اعتراض کرتے۔
(الاتقان، جلد 1، صفحہ 271)
عبدالرحمن بن یزید کی روایت
عبدالرحمن بن یزید نقل کرتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے معوذتین اور فاتحہ کو اس بنا پر شامل نہیں کیا کہ وہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔
(مسند احمد، 21188)
لیکن:
- یہ روایت شاذ اور معلل ہے، کیونکہ یہ متواتر قرات کے خلاف ہے۔
- ابن الصلاح نے حدیث شاذ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
"شاذ وہ حدیث ہے جو ثقہ راوی کی دوسرے اوثق راویوں سے مخالفت کرے۔”
(An Introduction to the Science of Hadith, p57) - لہٰذا یہ روایت قرآن کے تواتر کے مقابلے میں قابل قبول نہیں۔
دیگر قابل غور نکات
ابن مسعودؓ نے خود معوذتین کا نزول رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا ہے۔ طبرانی کی روایت میں وہ فرماتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ پر ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں جن کی مثال پہلے کبھی نازل نہیں ہوئی، یعنی معوذتین۔”
(در منثور، جلد 6)
محققین اور علماء کی آراء
امام نوویؒ (676ھ):
"امت اس بات پر متفق ہے کہ معوذتین اور سورہ فاتحہ قرآن کا حصہ ہیں، اور اس کے انکار کا مطلب کفر ہے۔ ابن مسعودؓ کے متعلق جو کہا گیا ہے وہ جھوٹ ہے۔”
(الاتقان، جلد 1، صفحہ 270)
علامہ ابن حزمؒ:
"انکار معوذتین ابن مسعودؓ پر افتراء ہے۔ عاصم کی قرات، جو ابن مسعودؓ سے منقول ہے، اس میں معوذتین شامل ہیں۔”
(المحلی، جلد 1، صفحہ 13)
شیخ زاہد کوثریؒ:
"معوذتین کے انکار کو ابن مسعودؓ سے منسوب کرنا بے بنیاد ہے، اور یہ موقف امت کے اجماع کے خلاف ہے۔”
(مقالات الکوثری، صفحہ 16)
خلاصہ
- ابن مسعودؓ کا سورہ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن کا حصہ ماننا چار قراتوں سے ثابت ہے، جن کی اسناد سب سے زیادہ مستند ہیں۔
- ابن مسعودؓ نے خود فرمایا کہ سورہ فاتحہ "سبعاً من المثانی” میں شامل ہے۔
- معوذتین کی اہمیت اور فضیلت پر ابن مسعودؓ کے اقوال موجود ہیں، جو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ ان سورتوں کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔
- ابن مسعودؓ کے متعلق معوذتین کے انکار کی روایات شاذ اور معلل ہیں اور متواتر قرات کے خلاف ہیں۔