سوال
احادیث میں آتا ہے کہ سورج ہر روز اللہ کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ سورج ہر وقت کسی نہ کسی جگہ لوگوں کی نظر میں ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت درکار ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
حدیث کا مفہوم
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ”
[صحیح بخاری: 3199، صحیح مسلم: 159]
’’سورج جاتا ہے اور اللہ کے عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔‘‘
سجدہ کی حقیقت
- سجدہ کا مفہوم:
مخلوقات کا سجدہ ان کی حالت اور فطرت کے مطابق ہوتا ہے۔
جس طرح انسان کا سجدہ زمین پر پیشانی رکھنا ہے، اسی طرح سورج اور دیگر مخلوقات بھی اپنے مناسبِ حال سجدہ کرتے ہیں۔
سورج کا سجدہ اس کے اپنے مدار میں گردش کرنا اور اللہ کے حکم کی اطاعت ہے۔ - تمثیلی مفہوم:
بعض علماء کے نزدیک سورج کا سجدہ اللہ کی اطاعت کا استعارہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سورج ہر وقت اللہ کے حکم کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ - غیبی معاملات:
سورج کا عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرنا ایک غیبی معاملہ ہے، جسے انسانی عقل مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔
ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ اللہ کے حکم کو تسلیم کریں، چاہے اس کی حقیقت ہماری عقل سے ماورا ہو۔
عقل اور ایمان کا توازن
- محدود عقل کا دائرہ:
انسان کی عقل کئی معاملات میں محدود ہے۔
جیسے صحرا کی ریت کے ذرات یا آسمان کے ستاروں کو شمار کرنا ممکن نہیں، اسی طرح غیبی امور کو مکمل سمجھنا بھی انسانی عقل کے دائرے سے باہر ہو سکتا ہے۔ - اللہ کی قدرت:
اللہ تعالیٰ کی قدرت انسان کی عقل سے بالاتر ہے۔
اگر انسان ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف مقامات پر موجود لوگوں کو ایک وقت میں دیکھ سکتا ہے، تو اللہ کے لیے یہ کیسے ناممکن ہو سکتا ہے کہ سورج کو سجدہ کرنے کی حالت میں رکھے اور ہمیں بھی نظر آئے؟
عقیدے کا تقاضا
یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا، اسے تسلیم کیا جائے، چاہے ہم اس کی حقیقت کو مکمل طور پر نہ سمجھ سکیں۔
غیبی معاملات میں تسلیم و رضا کا رویہ اپنانا ہی حقیقی بندگی کی علامت ہے۔
خلاصہ
سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنا ایک غیبی حقیقت ہے جس کی کیفیت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہ سجدہ سورج کی اللہ کے حکم کے مطابق گردش اور اطاعت کی علامت ہو سکتا ہے۔ انسانی عقل ان غیبی امور کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی، اس لیے ان معاملات میں اللہ کے فرمان کو تسلیم کرنا عقیدے کا تقاضا ہے۔
واللہ اعلم