سورت بقرہ کی آخری دو آیات
➊ سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قرأ بالآيتين من آخر سورة البقرة فى ليلة كفتاه .
صحيح البخاري :4008، صحیح مسلم : 807
جو ہر رات سورت بقرہ کی آخری دو آیات پڑھے، وہ اسے کافی ہو جائیں گی۔
کافی ہونے کا مطلب ہے :
◈ شیطان کی شر انگیزیوں سے حفاظت ہوگی۔
◈ ناگہانی مصائب اور آفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔
◈ نماز تہجد سے کفایت کریں گی۔
! ہم اس بھلائی سے کس درجہ محروم ہیں، کبھی سوچا آپ نے؟
➋ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده جبريل عليه السلام إذ سمع نقيضا فوقه، فرفع جبريل بصره إلى السماء فقال : هذا الباب قد فتح من السماء ما فتح قط قال : فنزل ملك فأتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال : أبشر بنورين أوتيتهما لم يوتهما نبي قبلك : فاتحة الكتاب، وخواتيم سورة البقرة، لن تقرأ حرفا منه إلا أعطيته.
صحیح مسلم : 806
جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آسمانوں سے چرچراہٹ سنائی دی، جبریل علیہ السلام نے کہا : یہ آسمان کا دروازہ ہے، جو صرف آج کھولا گیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس سے ایک فرشتہ اترا ہے اور یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور عرض کیا : آپ کو دو نوروں کی بشارت دیتا ہوں، جو آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ وہ سورت فاتحہ اور سورت بقرہ کی آخری دو آیات ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کوئی بھی حرف پڑھیں گے، تو نور پائیں گے۔
➌ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فضلنا على الناس بثلاث جعلت الأرض كلها لنا مسجدا، وجعلت تربتها لنا طهورا، وجعلت صفوفنا كصفوف الملائكة ، وأوتيت هؤلاء الآيات آخر سورة البقرة من كنز تحت العرش لم يعط منه أحد قبلي، ولا يعطى منه أحد بعدي .
صحیح مسلم : 522
تین چیزیں دوسری امتوں پر ہماری فضیلت ہیں، ساری روئے زمین ہمارے لیے مسجد بنادی گئی ہے۔ مٹی ہمارے لیے طہارت کا ذریعہ ہے، ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں جیسی ہیں، عرش کے نیچلے خزانے سے سورت بقرہ کی آخری آیات دی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی ۔
➍ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
خواتيم سورة البقرة أنزلت من كنز تحت العرش .
فضائل القرآن للنسائي : 48، وسنده صحيح
سورت بقرہ کی آخری آیات عرش کے نیچے والے خزانے سے نازل کی گئی ہیں۔
➎ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر تین چیزیں دی گئیں :
أعطي الصلوات الخمس، وأعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لمن لم يشرك بالله من أمته شيئا، المقحمات .
صحیح مسلم : 173
پانچ نمازیں ، سورت بقرہ کی آخری آیات اور شرک کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے تمام گناہوں کی معافی ۔
➏ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السموات والأرض بألفي عام أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا يقرآن فى دار ثلاث ليال فيقربها شيطان .
مسند الإمام أحمد : 274/4؛ سنن الترمذي : 2882؛ وقال : حسن غريب سنن الدارمي : 449/2؛ المستدرك للحاكم : 260/24562/1؛ وسنده صحيح
زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے اللہ نے ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب سے دو آیات نازل فرمائیں، جن کے ساتھ سورت بقرہ کا اختتام فرمایا۔ یہ آیتیں تین دن تک جس جگہ پڑھی جائیں، شیطان اس کے قریب تک نہیں پھٹکتا ۔
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ 782 اور امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
➐ ابو اسود ظالم بن عمرو دؤلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قلت لمعاذ بن جبل: أخبرني عن قصة الشيطان حين أخذته قال: جعلني رسول الله صلى الله عليه وسلم على صدقة المسلمين فجعلت التمر فى غرفة قال: فوجدت فيه نقصانا فأخبرت رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك فقال: هذا الشيطان يأخذه قال : فدخلت الغرفة وأغلقت الباب على فجائت ظلمة عظيمة فغشيت الباب ثم تصور فى صورة ثم تصور فى صورة أخرى فدخل من شق الباب فشددت إزاري على فجعل يأكل من التمر فوثبت إليه فضبطته فالتقت يداي عليه فقلت: يا عدو الله قال : خل عني فإني كبير ذو عيال كثير وأنا من جن نصيبين وكانت لنا هذه القرية قبل أن يبعث صاحبكم فلما بعث أخرجنا منها خل عني فلن أعود إليك فخليت عنه فجاء جبريل عليه السلام فأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بما كان فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ونادى مناديه أين معاذ بن جبل؟ فقمت إليه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما فعل أسيرك فأخبرته فقال : أما إنه سيعود فعد قال: فدخلت الغرفة وأغلقت على الباب فجاء فدخل من شق الباب فجعل يأكل من التمر فصنعت به كما صنعت فى المرة الأولى فقال : خل عني فإني لن أعود إليك فقلت: يا عدو الله ألم تقل : إنك لن تعود قال: فإني لن أعود وآيه ذلك أنه لا يقرأ أحد منكم خاتمة البقرة فيدخل أحد منا فى بيته تلك الليلة .
المواتف لإبن أبي الدنيا : 175 ، دلائل النبوة لأبي نعيم : 547؛ المعجم الكبير للطبراني : 162/20، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 563/1، دلائل النبوة للبيهقي : 109/7-110، وسنده حسن
میں نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا : وہ قصہ کیا ہے، جب آپ نے شیطان پکڑا تھا ؟ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بیت المال کا نگران بنایا۔ بیت المال کے کمرے میں کھجوریں تھیں، وہ مجھے کم ہوتی محسوس ہوئیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کی، آپ نے فرمایا : یہ کھجوریں شیطان لے جاتا ہے۔ ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا، اندھیرا اتنا شدید تھا کہ دروازہ بھی نظر نہیں آرہا تھا، شیطان نے اندر گھسنے کے لیے ایک صورت اختیار کی، پھر دوسری صورت اختیار کی اور دروازے کے شگاف کے راستے اندر داخل ہو گیا۔ میں نے بھی لنگوٹ کس لیا۔ اس نے کھجوریں اٹھانا شروع کیں، تو جھپٹ کر اسے دبوچ لیا۔ میں نے کہا: ارے اللہ کے دشمن ! کیا کر رہا ہے؟ اس نے کہا: مجھے جانے دو۔ میں بوڑھا اور کثیر الاولاد ہوں۔ نصیبیں (بستی کا نام) کے جنوں سے تعلق رکھتا ہوں۔ تمھارے صاحب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہم بھی اسی بستی کے رہائشی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، تو ہمیں یہاں سے نکال دیا گیا۔ آج مجھے رہا کر دیں، دوبارہ نہیں آؤں گا، میں نے رہا کر دیا۔ یہ سارا قصہ جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد اعلان کیا کہ معاذ حاضر ہوں، میں آپ کی طرف چل دیا۔ فرمایا : آپ کے قیدی کا کیا ہوا؟ میں نے قصہ عرض کر دیا۔ فرمایا : جلد ہی وہ دوبارہ آئے گا، آپ بھی جائیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا، شیطان آیا، دروازے کے شگاف سے اندر گھسا اور کھجوریں کھانا شروع کر دیا۔ میں نے اس کے ساتھ پہلے والا معاملہ کیا، کہنے لگا، مجھے چھوڑ دیں، آئندہ نہیں آؤں گا، میں نے کہا : اللہ کے دشمن ! تو نے آئندہ نہ آنے کا وعدہ کیا تھا۔ کہا : میں آئندہ نہیں آؤں گا، جو رات آپ سورت بقرہ کی آخری آیات پڑھتے ہیں اس رات ہم آپ کے گھروں میں نہیں گھس سکتے۔
اس حدیث کی سند کو امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
➑ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إنه كان له جرين فيه تمر، وكان يتعاهده فيجده ينقص، فحرسه ذات ليلة، فإذا هو بدابة كهيئة الغلام المحتلم، قال: فسلمت فرد السلام، فقلت : ما أنت، جن أم إنس؟ فقال: جن، فقلت: ناولني يدك، فإذا يد كلب وشعر كلب، فقلت: هكذا خلق الجن، فقال : لقد علمت الجن أنه ما فيهم من هو أشد مني، فقلت: ما يحملك على ما صنعت؟ قال : بلغني أنك رجل تحب الصدقة، فأحببت أن أصيب من طعامك، قلت: فما الذى يحرزنا منكم؟ فقال: هذه الآية آية الكرسي، قال: فتركته، وغدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق الخبيث .
صحيح ابن حبان : 784، وسنده حسن
میں کھجوروں کے گودام پر نگران تھا، مجھے کھجوریں کم ہوتی محسوس ہوئیں۔ ایک رات جب میں پہرہ پر تھا، تو اچانک ایک جانور نمودار ہوا، جس کی شکل نوجوان لڑکے جیسی تھی۔ میں نے سلام کہا، اس نے جواب دیا، پوچھا : جن ہو یا انسان؟ کہا : جن۔ میں نے کہا : ہاتھ پکڑاؤ، اس کے ہاتھ اور بال کتے جیسے تھے، میں نے کہا : جنوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی پیدا کیا ہے؟ کہنے لگا: جنوں کو علم ہے کہ مجھ سے زیادہ قوی اور کوئی نہیں۔ میں نے کہا : یہ کام کیوں کرتے ہو؟ کہا : مجھے خبر ملی ہے کہ آپ صدقہ پسند کرتے ہیں، سو دل چاہا کہ آپ کا کھانا میں بھی کھا لوں، میں نے کہا : تم سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ کہا : آیت الکرسی سے۔ میں نے اسے چھوڑ دیا، صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، تو فرمایا: خبیث نے سچ بولا ہے۔
ہمارے ہاں بعض گھروں میں جنات کا عمل دخل رہتا ہے، مثلا آگ لگ جانا، لائٹ کا آن آف ہونا، بدبو کا احساس، مختلف آوازیں سنائی دینا، خون کے چھینٹے، گوشت کے لوتھڑے اور اس قبیل کے دیگر واقعات، یہ سب شیاطین کی چالیں ہیں اور کامیاب اس لیے ہوتی ہیں کہ گھروں میں ذکر الہی کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
تلاوت قرآن، سورت بقرہ کی آخری دو آیات اور آیت الکرسی کا گزران نہیں۔ لوگ ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے جادو گروں، شعبدہ بازوں اور شرکیہ جھاڑ پھونک کرنے والوں کا رخ کرتے ہیں اور یہ انسان نما بھیڑیے، مال اور عزت تو لوٹتے ہی ہیں، ساتھ میں ایمان کے بھی حصے بخرے کر دیتے ہیں۔ رحمان کے لشکر سے نکال کر شیطان کے خیموں میں پہنچا دیتے ہیں اور شیطان انھیں ہمیشہ کے لیے اپنے دام تزویر میں پھانس لیتا ہے۔ پھر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ شیطان جنوں سے چھٹکارا ملے، ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ سدا کا روگ لگ جاتا ہے، لہذا ان لٹیروں سے بچ جائیں اور گھروں میں سنتوں کو رواج دیں۔ گھر میں داخل ہوں۔ تو بسم الله پڑهيں