سورت اخلاص کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
➊ سیدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔
قام رجل من الليل، فقرأ: قل هو الله أحد السورة يرددها لا يزيد عليها، فلما أصبحنا قال رجل: يا رسول الله إن رجلا قام الليلة من السحر يقرأ قل هو الله أحد لا يزيد عليها، كأن الرجل يتقللها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده، إنها لتعدل ثلث القرآن.
صحیح البخاري : 5013
ایک شخص قیام اللیل میں بار بار صرف سورت اخلاص پڑھ رہا تھا۔ صبح ہوئی، تو کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اللہ کے رسول! ایک آدمی قیام اللیل میں سحری تک سورت اخلاص ہی پڑھتا رہا، کوئی دوسری سورت نہیں پڑھی۔ شکایت کرنے والا سورت اخلاص کو بہت کم سمجھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! سورت اخلاص ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔
إن النبى صلى الله عليه وسلم بعث رجلا على سرية، وكان يقرأ لأصحابه فى صلاتهم فيختم بقل هو الله أحد، فلما رجعوا ذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: سلوه ل أى شيء يصنع ذلك؟ فسألوه، فقال : لأنها صفة الرحمن، وأنا أحب أن أقرأ بها، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: أخبروه أن الله يحبه.
صحيح البخاري : 7375، صحیح مسلم : 813
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی قیادت میں لشکر بھیجا۔ وہ صاحب جب نماز پڑھاتے ، تو اپنی قرات سورت اخلاص پر ختم کرتے۔ لشکر واپس آیا، تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معمول کا ذکر کیا، فرمایا : ان سے پوچھیں، وہ ایسا کیوں کرتے رہے؟ لوگوں نے دریافت کیا، تو انھوں نے جواب دیا : یہ رحمن کی صفات پر مشتمل ہے، لہذا میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انھیں آگاہ کر دیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔
➌ سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دعا پڑھتے سنا :
أللهم إني أسألك بأني أشهد أنك أنت الله لا إله إلا أنت الأحد الصمد الذى لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد.
سنن أبي داود : 1493، سنن الترمذي : 3475، سنن ابن ماجه : 3857، وسنده صحيح
اللہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تو اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ایک ہے، تو بے نیاز ہے۔ تو نے کسی کو جنم نہیں دیا اور تجھے کسی نے جنم نہیں دیا، تیرا کوئی ہمسر نہیں۔ میں اس گواہی کے وسیلے سے دعا مانگتا ہوں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کے وسیلے سے سوال کیا۔ اسم اعظم کے وسیلے سے دعا مانگی جائے، تو اللہ اسے قبول فرماتا ہے اور جب اس کے وسیلے سے کچھ مانگا جائے، تو عطا کر دیتا ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن غریب، امام ابن حبان رحمہ اللہ 291 نے صحیح اور امام حاکم رحمہ اللہ 504/1 نے امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
➍ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يقرا: قل هو الله أحد حتى ختمها، فقال: وجبت قيل: يا رسول الله ما وجبت؟ قال: الجنة، قال أبو هريرة: فأردت أن آتيه فأبشره، فخفت الغداء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفرقت أن يفوتني الغداء مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم رجعت إلى الرجل فوجدته قد ذهب.
موطأ الإمام مالك : 208/1، مسند الإمام أحمد 4537,536,302/2 سنن النسائي : 995، سنن الترمذي : 2897 وسنده حسن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سورت اخلاص کی تلاوت کرتے سنا، اس نے سورت مکمل کر لی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : واجب ہو گئی۔ لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول! کیا واجب ہو گئی؟ فرمایا : اس کے لیے جنت واجب ہو گئی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ارادہ تھا کہ اس کے پاس جاؤں اور اسے خوش خبری سناؤں، مگر اندیشہ ہوا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ناشتے کی سعادت سے محروم نہ رہ جاؤں، لہذا پہلے ناشتہ کیا ، ناشتے کے بعد اسے خوش خبری دینے گیا، لیکن تب تک وہ جاچکا تھا۔
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح غریب کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ 5661 نے صحیح الاسناد اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ۔
➎ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔
إن رجلا قام فركع ركعتي الفجر، فقرأ فى الركعة الأولى: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ سورة الكافرون: 1، حتى انقضت السورة، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: هذا عبد عرف ربه، وقرأ فى الآخرة قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص 1 حتى انقضت السورة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا عبد آمن بربه فقال طلحة: فأنا أستحب أن أقرأ بهاتين السورتين فى هاتين الركعتين.
صحیح ابن حبان : 213/6 ، ح : 2460 ، وسنده حسن
ایک شخص کھڑا ہوا، فجر کی دو سنتیں ادا کیں، پہلی رکعت میں سورت کافرون پڑھی، مکمل ہوئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ دوسری میں سورت اخلاص پڑھی ،مکمل ہوئی، تو فرمایا: یہ اپنے رب پر ایمان لایا۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں سمجھتا ہوں کہ ان دو رکعتوں میں یہ دو سورتیں پڑھنا مستحب ہے۔
➏ شرح معانی الآثار للطحاوی 298/1 میں الفاظ ہیں۔
هذا عبد عرف ربه .
یہ ہے، وہ انسان، جس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نتائج الافكار: 504,503/1 نے حسن کہا ہے۔