سوال:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
جبريل عليه السلام قاعد عند النبى صلى الله عليه وسلم سمع صوتا نقيضا من فوقه فقال: هذا باب من السماء فتح اليوم، لم يفتح قط إلا اليوم، فنزل منه ملك فقال: هذا ملك نزل إلى الأرض لم ينزل قط إلا اليوم، فسلم وقال: أبشر بنورين أوتيتهما لم يؤتهما نبي قبلك، فاتحة الكتاب، وخواتيم سورة البقرة، لم تقرأ بحرف منها إلا أعطيته.
جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آسمانوں سے چرچراہٹ سنائی دی۔ جبریل علیہ السلام کہنے لگے: یہ آسمان کا وہ دروازہ ہے، جو صرف آج کھولا گیا ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا، جو پہلے کبھی نہیں اترا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور عرض کیا: مبارک ہو، آپ کو دو نور عطا کیے گئے ہیں، جو آپ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے: سورة الفاتحہ اور سورة البقرہ کی دو آخری آیتیں۔ آپ ان میں سے ایک حرف بھی پڑھیں گے، تو وہ نور پائیں گے۔
(صحيح مسلم: 806)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی کو سورة فاتحہ اور سورة بقرہ کی آخری آیات نہیں دی گئیں؟ جبکہ دیگر سورتیں بھی تو نہیں دی گئیں، اس کا کیا مفہوم ہے؟
جواب:
یہاں مراد سورتوں کے الفاظ نہیں، کیونکہ وہ تو کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ اس حدیث میں مراد یہ ہے کہ جو مضمون سورة فاتحہ اور سورة بقرہ کی آخری آیات میں بیان ہوا ہے، وہ پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔ اس میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خصوصیات دی گئیں، وہ پہلے کسی امت کے حصے میں نہیں آئیں۔
سورة فاتحہ بندے اور رب کے درمیان ایک طرح کا مکالمہ ہے۔ بندہ سورة فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے، تو رب تعالیٰ اپنے بندے کو جواب دیتا ہے۔ یہ فضیلت پہلے کسی نبی اور ان کی امت کے حصے میں نہیں آئی۔
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل صلاة لا يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج، فهي خداج، فهي خداج، قال: يا أبا هريرة، إني أحيانا أكون وراء الإمام، قال: يا فارسي، اقرأ بها فى نفسك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: قال الله عز وجل: قسمت الصلاة بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل، قال العبد: الحمد لله رب العالمين، قال الله: حمدني عبدي، فإذا قال: الرحمن الرحيم، قال الله: أثنى على عبدي، فإذا قال: مالك يوم الدين، قال الله: مجدني عبدي، أو قال: فوض إلى عبدي، فإذا قال: إياك نعبد وإياك نستعين، قال: هذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل.
جس نے سورة فاتحہ نہ پڑھی، اس کی نماز باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ راوی نے عرض کیا: بسا اوقات میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں، (تو کیا کروں؟)۔ فرمایا: اے فارسی! پست آواز میں پڑھ لیا کریں، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے میں تقسیم کر دیا ہے۔ میرا بندہ جو مانگے گا اسے عطا کروں گا۔ وہ کہتا ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ بندہ کہتا ہے: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللہ فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری ثنا کی۔ بندہ کہتا ہے: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ، اللہ فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی، یا کہتا ہے: میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کر دیا۔ بندہ کہتا ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ، اللہ فرماتے ہیں: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے۔ میرا بندہ جو مانگے گا، وہ ملے گا۔
(صحيح مسلم: 395)
اسی طرح سورة بقرہ کی آخری آیات میں مؤمنوں کے ایمان کی کیفیت ذکر کی گئی ہے کہ ہم تمام رسولوں اور تمام منزّل کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، رسولوں پر ایمان لانے میں کوئی تفریق نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں، اور خطاؤں اور لغزشوں پر اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہیں۔