سودی کاروباری شخص سے تعلقات اور دعوت قبول کرنے کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد 2، صفحہ 217

سودی معاملات کرنے والوں سے تعلقات، لین دین اور دعوت و قبولِ دعوت کی شرعی حیثیت

سوال:

سودی معاملات میں ملوث افراد سے تعلقات رکھنا، ان کے ساتھ لین دین کرنا اور ان کی دعوت کو قبول کرنا شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ سودی معاملات کرنے والا شخص فاسق و فاجر شمار ہوتا ہے۔

◈ اگر کوئی دنیوی نفع مقصود ہو تو ایسے شخص سے:

➊ تعلقات قائم کرنے،

➋ لین دین کرنے،

➌ اور دعوت قبول کرنے سے اجتناب کیا جا سکتا ہے۔

◈ لیکن اگر اس سے دینی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو تو:

➊ ایسے شخص سے تعلقات رکھنا،

➋ لین دین کرنا،

➌ اور اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہے۔

دعوت قبول کرنے کی شرعی دلیل:

◈ ان احادیث میں یہ بات آئی ہے کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی دعوت قبول فرمائی۔

➋ یہ بات واضح ہے کہ سودی لین دین یہودیوں کا خاص وطیرہ رہا ہے۔

➌ اس کے باوجود:

یہودیوں کا حلال کھانا قرآن کی نص کے مطابق مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیا گیا ہے۔

حوالہ:

مصنف عبدالرزاق میں بھی اس بارے میں ذکر موجود ہے:

➊ جلد ۸، صفحہ ۱۵۱، حدیث نمبر ۱۴۶۸۱

➋ قول الحسن البصری، باب: طعام الامراء و اکل الربا وغیرہ

اہم تنبیہ:

◈ اگر کسی دعوت یا کھانے کے متعلق یقینی طور پر علم ہو جائے کہ:

➊ وہ خالص سودی مال سے تیار کیا گیا ہے یا

➋ خریدا گیا ہے تو:

ایسا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1