سودی معاملات کرنے والوں سے تعلقات، لین دین اور دعوت و قبولِ دعوت کی شرعی حیثیت
سوال:
سودی معاملات میں ملوث افراد سے تعلقات رکھنا، ان کے ساتھ لین دین کرنا اور ان کی دعوت کو قبول کرنا شریعت کی روشنی میں کیسا ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
◈ سودی معاملات کرنے والا شخص فاسق و فاجر شمار ہوتا ہے۔
◈ اگر کوئی دنیوی نفع مقصود ہو تو ایسے شخص سے:
➊ تعلقات قائم کرنے،
➋ لین دین کرنے،
➌ اور دعوت قبول کرنے سے اجتناب کیا جا سکتا ہے۔
◈ لیکن اگر اس سے دینی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو تو:
➊ ایسے شخص سے تعلقات رکھنا،
➋ لین دین کرنا،
➌ اور اس کی دعوت قبول کرنا جائز ہے۔
دعوت قبول کرنے کی شرعی دلیل:
◈ ان احادیث میں یہ بات آئی ہے کہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی دعوت قبول فرمائی۔
➋ یہ بات واضح ہے کہ سودی لین دین یہودیوں کا خاص وطیرہ رہا ہے۔
➌ اس کے باوجود:
• یہودیوں کا حلال کھانا قرآن کی نص کے مطابق مسلمانوں کے لیے حلال قرار دیا گیا ہے۔
حوالہ:
◈ مصنف عبدالرزاق میں بھی اس بارے میں ذکر موجود ہے:
➊ جلد ۸، صفحہ ۱۵۱، حدیث نمبر ۱۴۶۸۱
➋ قول الحسن البصری، باب: طعام الامراء و اکل الربا وغیرہ
اہم تنبیہ:
◈ اگر کسی دعوت یا کھانے کے متعلق یقینی طور پر علم ہو جائے کہ:
➊ وہ خالص سودی مال سے تیار کیا گیا ہے یا
➋ خریدا گیا ہے تو:
• ایسا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب