سودی فوائد (منافع) کے ساتھ بنکوں میں سرمایہ کاری کا حکم
علمائے شریعت کے ہاں یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مال سے سودی فوائد کے لیے سرمایہ کاری کرنا شرعاً حرام، کبیرہ گناہ اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» [البقرة: 278]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس کے دو گواہوں پر لعنت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔ [صحيح مسلم 1598/106]
صحیح بخاری میں حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے، کھلانے اور تصویر بنانے والے پر لعنت کی ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2086]
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کونسی چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیموں کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا، پاکدامن، بے خبر اور ایماندار عورتوں پر بہتان لگانا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2766 صحيح مسلم 89/145]
سود کی حرمت اور اس سے ڈرانے والی آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں، لہٰذا تمام مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اسے چھوڑ دیں، اس سے بچیں اور اسے ترک کرنے کی ایک دوسرے کو نصیحت کریں۔
مسلمان حکمرانوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں بنکوں کے ذمے داران کو منع کریں اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ کرنے کے لیے اور اس کی سزا سے بچنے کے لیے انہیں شریعت مطہرہ کے احکام کا پابند بنائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ» [المائدة: 79,78]
”وہ لوگ جنھوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا، ان پر داود اور مسیح ابن مریم کی زبان پر لعنت کی گئی، یہ اس لیے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے، جو انہوں نے کی ہوتی، روکتے نہ تھے، بے شک برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔“
ارشاد ربانی ہے:
« وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [التو بة: 71]
”اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا، بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجو ب پر دلالت کرنے والی آیات اور احادیث بکثرت ہیں اور سب کو معلوم ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے تمام مسلمانوں
کے لیے، وہ حکام ہوں کہ رعایا، علما ہوں کہ عوام، شریعت کو مکمل اپنانے، اس پر استقامت اختیار کرنے اور اس کی مخالفت سے بچنے کی توفیق کاسوال کرتے ہیں۔
[ابن باز مجموع الفتاوي و التقالات: 131/19]