ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر: 1 صفحہ نمبر: 189
سودی مال سے مسجد یا کنواں تعمیر کروانے کا مسئلہ
سوال:
زید ایک سودی کاروبار کرنے والا شخص ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے یا کسی دوسرے گاؤں میں عوامی فلاح کے لیے مسجد یا کنواں تعمیر کروائے۔ مگر لوگ اس کی سود خوری کی وجہ سے اس کے اس عمل کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ زید کا کہنا ہے کہ:
"میرے پاس سودی کاروبار میں لگے ہوئے پیسے کے علاوہ بھی غیر سودی اور حلال کمائی موجود ہے، اور میں مسجد یا کنواں اسی حلال کمائی سے تعمیر کرواؤں گا۔”
ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
- کیا زید کے اس دعویٰ کی تصدیق کی جائے؟
- کیا اسے مسجد یا کنواں تعمیر کروانے کی اجازت دی جائے؟
(سوال از: محمد مسلم رحمانی، مالدہ)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
- اگر زید واقعی اپنی حلال کمائی سے مسجد یا کنواں بنوانا چاہتا ہے، اور وہ پیسے جو اس نے سودی کاروبار میں نہیں لگائے، انہی سے تعمیر کروانا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں اس کے لیے مسجد یا کنواں تعمیر کروانا جائز ہے۔
- اس مسجد میں نماز ادا کرنا بالکل جائز ہے، اور اس میں ادا کی جانے والی نماز باعثِ ثواب ہوگی۔
- اسی طرح اگر وہ کنواں بنواتا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا بھی شرعاً جائز ہوگا۔
زید کے قول پر اعتبار:
- زید کی بات کو سچ ماننے اور اس کے قول کی تصدیق کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ موجود نہیں ہے، جب وہ کہے کہ وہ حلال کمائی سے مسجد یا کنواں بنوا رہا ہے۔
تاریخی نظیر:
- کفارِ مکہ نے بھی اپنی حلال کمائی سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
- اگر آج کوئی غیر مسلم بھی مسجد کی تعمیر کو نیکی کا کام سمجھ کر اپنی حلال کمائی سے مدد کرنا چاہے، تو اس کی امداد کو قبول کرنا جائز ہوگا۔
(محدث دہلی : جلد 1، شمارہ 5، رمضان 1365ھ / اگست 1946ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب