سوتیلی ماں کے بیٹے اور سوتیلے باپ کی بیٹی کا نکاح جائز ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 118

سوال

علمائے حق اور مفتیان کرام اس مسئلے پر کیا فرماتے ہیں کہ دو سگے بھائی ہیں۔ ان میں سے ایک بھائی وفات پا چکا ہے اور دوسرے بھائی کی بیوی کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔ اب جس بھائی کا انتقال ہوا ہے، اس کی بیوی سے دوسرے بھائی نے نکاح کر لیا ہے۔ اس صورتِ حال میں پہلا بھائی (جو وفات پا چکا ہے) کا ایک بیٹا ہے، اور دوسرے بھائی (جس نے اپنے بھائی کی بیوہ سے نکاح کیا ہے) کی ایک بیٹی ہے۔ کیا ان دونوں (بیٹے اور بیٹی) کا آپس میں نکاح جائز ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چونکہ یہ لڑکا اور لڑکی آپس میں غیر محرم ہیں، اس لیے ان کے درمیان نکاح جائز ہے۔

قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:

"حُرِّ‌مَت عَلَيكُم أُمَّهاتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَواتُكُم ……..”
(الآية)

اس آیتِ مبارکہ میں جن رشتوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، ان میں یہ لڑکا اور لڑکی شامل نہیں ہیں۔ چنانچہ ان دونوں کا نکاح منع نہیں۔

بلکہ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشاد ہے:

"وَأُحِلَّ لَكُم ما وَر‌اءَ ذٰلِكُم أَن تَبتَغوا بِأَموالِكُم مُحصِنينَ غَيرَ‌ مُسافِحينَ ….”
(الآية)

یعنی ان کے علاوہ دیگر عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں، بشرطیکہ تم اُن سے نکاح کرو پاک دامنی کے ساتھ، نہ کہ زنا کے ارادے سے۔

لہٰذا، شریعت کے مطابق ان دونوں (بیٹے اور بیٹی) کا آپس میں نکاح بلا شبہ صحیح اور جائز ہے۔ اس نکاح کی ممانعت کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے