سنت کی اہمیت اور تقلید کی مذمت
یہ اقتباس محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمه الله کی کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ فی الصلٰوۃ سے ماخوذ ہے۔

سنت کی اہمیت اور تقلید کی مذمت

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿‏ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾
در حقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ (3-آل عمران:164)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا والوں کی ہدایت کا سبب بنایا اور جن لوگوں نے آپ کی پیروی اور اطاعت اختیار کی تو وہ گمراہیوں کی اتھاہ تاریکیوں سے نکل کر فلاح و ہدایت کی روشن شاہراہ پر گامزن ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہدایت کا سبب ہے اور آپ کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع اختیار کرنا گمراہی ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:
‏ ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎. قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ.﴾
اے نبی! لوگوں سے کہہ دو اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ان سے کہو اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو پھر اگر وہ تمھاری دعوت قبول نہ کریں تو یقیناً یہ ناممکن ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہیں۔ (3-آل عمران:31،32)
اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا شرط ایمان ہے کیوں کہ ایمان کی وادی میں قدم رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ﴾
اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرتے ہیں۔ (2-البقرة:165)
اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا دعویدار ہے تو اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرنا لازم ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ایک شخص کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اپنے اس دعوے پر ثبوت پیش کرنا اس پر لازم ہوگا۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویدار ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر کے اس کا ثبوت فراہم کرے گا ورنہ اس کا یہ دعویٰ ہی سرے سے جھوٹا ہوگا۔ معلوم ہوا کہ ایمان والوں کے لیے اطاعت رسول فرض ہے اور اطاعت رسول سے اعراض کرنا کفر کے مترادف ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾
در حقیقت تمھارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ (33-الأحزاب:21)
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو مومنوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انھیں جو کچھ ملے، وہ اسے مضبوطی سے تھام لیں کیوں کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان کا یہی تقاضا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (59-الحشر:7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہدایت پر قائم رہنے کا ذریعہ ہے اور یہی صراط مستقیم ہے۔
اللہ فرماتا ہے:
﴿وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾
اور ان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی اختیار کرو تا کہ تمھیں ہدایت نصیب ہو۔ (7-الأعراف:158)
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ﴾
اور میری پیروی اختیار کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔ (43-الزخرف:61)
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کرنے کے بجائے کسی اور طریقے کو اختیار کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اسے اختیار کر کے وہ راہ ہدایت پالیں گے تو وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑنے والا گمراہ ہے اور قیامت کے دن بھی وہ ناکام و نامراد ہوگا۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے۔ (24-النور:63)
فتنہ کی مختلف صورتوں کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہے (اور یہ صورت تاریخ کے ناقابل تردید دلائل سے بالکل واضح ہے) کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو چھوڑ کر مختلف اماموں کی تقلید اختیار کر لیں گے اور یہ تفرقہ بازی ان میں شدید نفرت اور اختلافات پیدا کر دے گی اور آخرکار ان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔
ایک مقام پر ارشاد ہے:
﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ .‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ.﴾
وہ (نبی) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔ (53-النجم:3،4)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین میں اگر کسی شخص کی نفسانی خواہشات محترم ہو سکتیں تو یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہونا چاہیے تھا، لیکن رسول کی خواہشات کو بھی اللہ تعالیٰ نے دین قرار نہیں دیا بلکہ صاف اعلان فرما دیا کہ میرا یہ نبی اپنی خواہشات سے بولتا ہی نہیں بلکہ یہ جب بھی کلام کرتا ہے وحی کی زبان میں کلام کرتا ہے۔ مقام غور ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات اور رائے کی پیروی بھی لازم قرار نہ پائے تو پھر کسی اور شخص یا امام کی ذاتی آراء کس طرح دین بن سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ﴾
جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔ (4-النساء:80)
بتائیں کہ یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور انسان یا کسی امام کو حاصل ہو سکتا ہے کہ جس کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت قرار دے اور پھر کسی امام کی اتباع ہی نہیں بلکہ اس سے بھی چند قدم اور آگے بڑھ کر اس کی تقلید اختیار کر لی جائے؟
اتباع علم کی بنیاد پر جب کہ تقلید جہالت کے ساتھ خاص ہے کیوں کہ اتباع بالدلیل ہوتی ہے اور یہ علم ہے جب کہ تقلید ایسے عمل کا نام ہے جو کسی کی بات پر بغیر دلیل کے کیا جائے۔ پھر تقلید میں دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اندھا دھند کسی کے پیچھے چلنے کو تقلید کہا جاتا ہے اور مقلد کی دلیل صرف اس کے امام کا قول ہے۔ نہ تو وہ خود اس مسئلہ کی تحقیق کر سکتا ہے اور نہ اپنے امام کی تحقیق پر نظر ڈال سکتا ہے۔ ایسی جہالت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حافظ ابن حزم کی الاحکام فی اصول الاحکام اور حافظ ابن قیم کی اعلام الموقعین)
اس سلسلہ کی چند احادیث و آثار بھی ملاحظہ فرمائیں تا کہ یہ مسئلہ پوری طرح نکھر کر سامنے آ جائے۔
عن أبى هريرة قال قال رسول الله: كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى قيل ومن أبى؟ قال: من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا۔“ پوچھا گیا کہ انکار کرنے والا کون ہے؟ فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے انکار کیا۔“
(بخاری ج 2 ص 1081 حدیث 7280، مشکوۃ المصابیح 51/1 ح 143، واللفظ له طبع بیروت)
ایک موقع پر جب تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و سنن کو کم سمجھتے ہوئے عبادت میں زیادہ محنت و مشقت کا ارادہ ظاہر کیا یعنی ایک نے پوری رات جاگنے، دوسرے نے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تیسرے نے نکاح کو خیر باد کہہ کر پوری زندگی عبادت کرنے کا تہیہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا:
فمن رغب عن سنتي فليس مني
”پس جو شخص میری سنت سے بے رغبتی اختیار کرے گا (اور اسے استخفافاً و عناداً چھوڑ دے گا) تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔“
(بخاری ج 2 ص 758،757 حدیث: 5063 مسلم ج 1 ص 449 حدیث: 1401)
مطلب یہ ہے کہ تم اعمال میں چاہے کتنی ہی مشقت کیوں نہ اٹھاؤ لیکن اگر کسی شخص کا عمل میری اتباع اور فرمانبرداری سے خالی ہوگا تو ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (المتوفاة 57ھ) روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چھ قسم کے لوگ ہیں جن پر میں بھی لعنت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر لعنت فرمائی ہے۔ (ان چھ آدمیوں میں سے ایک)
والتارك لسنتي
”اور میری سنت کو ترک کرنے والا ہے۔“
(مستدرک ج 1 ص 36 وقال الحاکم صحیح الاسناد و وافقہ الذہبی، سنن الترمذی حدیث: 2154 وسنده حسن)
سیدنا عرباز بن ساریہ رضی اللہ عنہ (المتوفی 75ھ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ وإياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة
”تم پر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرنا لازم ہے۔ اس سے چمٹے رہو اور اپنے داڑھوں کے ساتھ (مضبوطی سے) پکڑے رکھو اور تم (دین میں) نئی نئی باتیں پیدا کرنے سے بچو، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
( احمد 4/126،127 ح 17275، ابوداود: 4607 وسنده صحیح، ترمذی: 2676، ابن ماجہ: 43، مشکوۃ المصابیح ج 1 ص 58 ح 165، و قال الترمذی: ”حدیث حسن صحیح“ صحه جماعة منهم ابن حبان (102) والحاکم (1/95،96) والذہبی والضیاء المقدسی فی اتباع السنن واجتناب البدع (ق 1/79)
معلوم ہوا کہ دین اسلام میں جو نئی بات بھی دین کے نام سے ایجاد کی جائے گی وہ بدعت ہے اور بدعت گمراہی کا دوسرا نام ہے۔ اس لیے تقلید بھی بدعت ہے کیوں کہ یہ بھی دین میں ایجاد کی گئی ہے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
”جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے۔“
صحیح بخاری: 2697 صحیح مسلم 1718/18 مشکوۃ ج 1 ص 51 ح 140
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:
لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به فإني أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ
”میں کسی ایسے کام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے مگر یہ کہ میں اس پر عمل پیرا رہوں گا کیوں کہ میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں سے کسی چیز (سنت) کو چھوڑ دیا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا۔“
(صحیح بخاری: 3093)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک اجتہادی حکم کے مقابلے میں فرمایا تھا:
ما كنت لأدع سنة النبى صلى الله عليه وسلم لقول أحد
”میں کسی شخص کے کہنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتا۔“ (صحیح بخاری: 1563)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول آیت: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ کی بہترین تفسیر ہے، آیت آگے آ رہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:
لو تركتم سنة نبيكم لضللتم
”اگر تم اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔“ (صحیح مسلم: 654)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر امتی پر آپ کی سنت کو اختیار کرنا لازم ہے۔ یہاں تک کہ جب قرب قیامت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی (آسمان سے نازل ہوکر) آئیں گے تو وہ آپ کی سنت کے خود بھی پابند ہوں گے اور لوگوں کو بھی آپ کی سنت پر چلائیں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں کسی اور نبی کی سنت کو اختیار کرنا بھی گمراہی اور ضلالت ہے چہ جائیکہ کسی امام کی تقلید کو اختیار کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ہر حال میں اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع (اختلاف) ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔ (النساء: 59)
اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت غیر مشروط اور اولوالامر کی اطاعت مشروط ہے۔ چنانچہ اولوالامر کی بات اگر کتاب و سنت کے مطابق ہوگی تو ان کی اطاعت بھی لازم ہے، لیکن اگر ان کا حکم کتاب و سنت کے خلاف ہوگا تو پھر ان کی اطاعت درست نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول گزر چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا طاعة فى معصية إنما الطاعة فى المعروف
”(اللہ اور رسول) کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں، اطاعت جو کچھ بھی ہے معروف میں ہے۔“ [بخاری: 7257 مسلم: 1840]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس لیے لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نمائندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو انسانوں تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے اور پھر وہ معصوم بھی ہیں اور وحی کی رہنمائی بھی آپ کو حاصل ہے جب کہ غیر نبی میں یہ تمام باتیں مفقود ہوتی ہیں اور اس سے غلطیوں کا صدور ایک لازمی امر ہے لہذا ہر مسئلہ میں اس کی تقلید کرنا اور اس کے قول کو حجت سمجھنا گمراہی کا سبب ہے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی امام کے قول کو پیش کرنا تو سخت ترین گمراہی ہے۔ بھلا جس امام پر خود اللہ اور رسول کی اطاعت لازم ہو اور جو اتباع کے لیے سنتِ رسول کا متلاشی ہو، خود اس کی تقلید کرنا کیسے لازم ہو جائے گی؟
یہ حقیقت ہے کہ ان ائمہ کرام نے بھی اپنی تقلید سے لوگوں کو منع کیا ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں حافظ ابن قیم کی شہرہ آفاق کتاب اعلام الموقعین اور فتاوی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ج 20 ص 11،10
سوال یہ ہے کہ جب ائمہ کرام نے لوگوں کو تقلید سے منع کیا ہے تو پھر تقلید پر اصرار کیوں؟ اصل بات یہ ہے کہ تقلید پر اصرار بعد کے لوگوں کی اختراع ہے ورنہ اہل علم نے تو ہر دور میں تقلید کی مخالفت کی ہے۔ مثلاً حافظ ابن کثیر کے متعلق مشہور ہے کہ وہ شافعی المذہب تھے لیکن وہ ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے (مختلف اقوال کو ذکر کرنے کے بعد) ارشاد فرماتے ہیں:
لیکن یہ یاد رہے کہ پچھلے اقوال سب کے سب ضعیف ہیں۔ جھگڑا صرف صبح اور عصر کی نماز میں ہے اور صحیح حدیثوں سے عصر کی نماز کا صلوۃ وسطیٰ ہونا ثابت ہے۔ پس لازم ہو گیا کہ سب اقوال کو چھوڑ کر یہی عقیدہ رکھیں کہ صلوۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔“
امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم رازی نے اپنی کتاب فضائل الشافعی میں روایت کی ہے کہ امام شافعی فرمایا کرتے تھے:
كل ما قلت فكان عن النبى صلى الله عليه وسلم بخلاف قولي مما يصح فحديث النبى صلى الله عليه وسلم أولى ولا تقلدوني
”میرے جس کسی قول کے خلاف( نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) کوئی صحیح حدیث مروی ہو تو حدیث ہی اولیٰ ہے خبردار میری تقلید نہ کرنا۔“
(آداب الشافعی لابن ابی حاتم ص 69 اور اس معنی وسنده حسن)
امام شافعی کے اس فرمان کو امام ربیع، امام زعفرانی اور امام احمد بن حنبل بھی روایت کرتے ہیں اور موسیٰ ابو الولید بن جارود امام شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
إذا صح الحديث وقلت قولا فأنا راجع عن قولي وقائل بذلك
”میری جو بات صحیح حدیث کے خلاف ہو، میں اپنی اس بات سے رجوع کرتا ہوں اور صاف کہتا ہوں کہ میرا مذہب وہی ہے جو حدیث میں ہے۔“
یہ امام صاحب کی امانت اور سرداری ہے اور آپ جیسے ائمہ کرام میں سے بھی ہر ایک نے یہی فرمایا ہے کہ ان کے اقوال کو دین نہ سمجھا جائے۔ رحمهم الله ورضي عنهم أجمعين. اس لیے قاضی ماوردی فرماتے ہیں:
امام صاحب کا صلوۃ وسطیٰ کے بارے میں یہی مذہب سمجھنا چاہیے کہ وہ عصر ہے گو امام صاحب کا اپنا قول یہ ہے کہ وہ عصر نہیں ہے۔ مگر آپ کے فرمان کے مطابق حدیث کے خلاف اس قول کو پا کر ہم نے چھوڑ دیا۔“
(تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 118، اردو ترجمہ نور محمد کارخانه کتب کراچی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں کسی کے قول کو اہمیت نہ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ خلفائے راشدین کی سنت کو رد کر دیتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ملک شام کے ایک شخص نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے متعلق دریافت کیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ حلال ہے۔ اس شامی نے کہا مگر آپ کے والد محترم (عمر فاروق رضی اللہ عنہ) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ اگر میرے والد نے اس سے منع فرمایا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کیا ہو تو تمھارا کیا خیال ہے؟ (تم میرے والد کے فعل کو حجت سمجھو گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو؟) میرے والد کے طریقہ کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کی؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ (سنت) کی۔ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج تمتع کیا تھا۔
(سنن الترمذی: 824 وقال: حدیث حسن صحیح)
سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ نے یہی بات سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہی، یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا ہے، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ (حج تمتع) کیا ہے اور ان کے ساتھ ہم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے بھی کیا ہے۔
(ایضا، ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے)
ایک صحیح روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صاف طور پر تقلید سے منع کیا ہے۔ (دیکھئے السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 200 وسنده صحیح)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
أما العالم فإن اهتدى فلا تقلدوه دينكم
”عالم اگر سیدھے راستے پر بھی ہو تو اس کی تقلید نہ کرو۔“
(جامع بیان العلم وفضله ج 2 ص 11 وسنده حسن و صحه الدار قطنی)
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے فرمان سے معلوم ہوا کہ دینی مسائل میں کسی کی تقلید اختیار کرنا بالکل ناجائز اور حرام ہے اور اسلام میں تقلید کا کوئی جواز موجود نہیں ہے اور اگر کسی کی راہنمائی اختیار کرنا ہی لازم ہو تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی فرمانبرداری اختیار کی جائے اور ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی فرمانبرداری اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فرمانبرداری بھی کتاب و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔
کسی نے غالباً اسی لیے کہا ہے:
فاهرب عن التقليد فهو ضلالة إن المقلد فى سبيل الهالك
تقلید سے دور بھاگو کیونکہ یہ گمراہی ہے اور اس میں شک نہیں کہ مقلد ہلاکت کی راہ پر گامزن ہے۔
حافظ ابن عبدالبر وغیرہ علماء نے اس پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ تقلید جہالت کا دوسرا نام ہے اور مقلد جاہل ہوتا ہے۔ (دیکھئے جامع بیان العلم جلد 2 صفحہ 17، و اعلام الموقعین ج 1 ص 7، ج 2 ص 188)
امام ترمذی، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے جانور کو اشعار کیا یعنی نشان لگایا“ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
امام وکیع نے جب یہ حدیث بیان کی تو فرمایا کہ اس میں اہل الرائے کے قول کی طرف نظر نہ کرو، کیوں کہ اشعار سنت ہے اور اہل الرائے کا قول بدعت ہے۔ ابو السائب کہتے ہیں کہ ہم امام وکیع کے پاس تھے کہ قیاس کرنے والوں (اہل الرائے) میں سے ایک شخص سے امام وکیع نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشعار کیا اور ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ یہ مثلہ ہے (جانوروں کے کان، ناک وغیرہ اعضا کاٹنے کو مثلہ کہتے ہیں) اس شخص نے کہا اور جو روایت کی گئی ہے کہ ابراہیم نخعی نے فرمایا: اشعار مثلہ ہے۔ کہتے ہیں میں نے امام وکیع کو دیکھا کہ وہ غصہ سے آگ بگولا ہو گئے اور کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (کہ اشعار کرو) اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی نے کہا (میں تمھارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پیش کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی نے یوں کہا ہے) تم اس قابل ہو کہ تمھیں قید کیا جائے اور جب تک تم اپنے قول سے باز نہ آ جاؤ اس وقت تک تمھیں نہ نکالا جائے۔ [سنن الترمذی ج 1 ص 177-178 ح 902، اردو ترجمہ نور محمد کارخانه کتب کراچی]
امام وکیع، امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور ان کے متعلق بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ امام ابو حنیفہ کے مقلد تھے، لیکن یہ واقعہ ان حضرات کے دعوے کو رد کرنے کے لیے بہت ہی کافی و شافی ہے۔ (اس طرح کی بہت سی مثالیں اعلام الموقعین اور ایقاظ ہمم اولی الابصار میں بھی موجود ہیں۔)
مقلدین حضرات عموماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو تقلید کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ سنت اور حدیث کو اپنے مقرر کردہ اصول و قواعد کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور جب کوئی حدیث ان کے خود ساختہ اصولوں پر پوری طرح فٹ نہیں بیٹھتی تو وہ اسے کھینچ تان کر اس اصول کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی حدیث ان کے مذہب کے بالکل خلاف ہو تو پھر اس حدیث میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتے ہیں اور احادیث صحیحہ کا وہ پوسٹ مارٹم کرتے ہیں کہ الامان والحفیظ!
چنانچہ دوسرے بہت سے مسائل کے علاوہ رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور دو رکعت سے اٹھتے وقت رفع الیدین کے ساتھ مقلدین کا جو رویہ رہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے کیوں کہ جہاں ایک طرف مقلدین حضرات احادیث صحیحہ کا انکار کرتے ہیں وہاں دوسری طرف رفع الیدین کو لوگوں کی نگاہوں میں قابل نفرت عمل بنانے کے لیے انھوں نے عجیب و غریب کہانیاں مشہور کر رکھی ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ عظیم الشان سنت آج جاہل لوگوں کی نگاہوں میں ایک قابل نفرت فعل بن کر رہ گئی ہے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کا اظہار کرنا یا دل میں اس کے خلاف قابل نفرت جذبات رکھنا ایمان کے منافی عمل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ ‎
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ تسلیم کر لیں۔(4-النساء:65)
بعض نام نہاد ”حنفیوں“ نے رفع یدین پر اہل حدیث کی تکفیر بھی کر رکھی ہے۔
عاشق الہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں:
”اصل بات یہ تھی کہ بعض حنفیوں نے اہل حدیث یعنی غیر مقلدین زمانہ کو رفع یدین پر کافر کہنا شروع کر دیا تھا اور یہ سخت ترین غلطی تھی، بڑی گمراہی تھی۔“
[تذکرة الخلیل ص 133،132]
لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ اس سنت کی اہمیت کے واضح ہو جانے کے بعد اب وہ پابندی سے اسے ادا کریں اور لومۃ لائم کی کوئی پروا نہ کریں کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
صلوا كما رأيتموني أصلي
”نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔“
(بخاری کتاب الاذان باب الاذان للمسافرين اذا کانوا جماعة ح 631)
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے علم و تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے محنت شاقہ کے ذریعے رفع الیدین کا مسئلہ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے اور حق و انصاف اور پوری دیانت داری کے ساتھ رفع الیدین کے دونوں پہلوؤں یعنی رفع الیدین اور عدم رفع الیدین کو پوری عرق ریزی اور محدثین و سلف صالحین کی تصدیقات و حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا ہے اور ناقابل تردید دلائل کے ساتھ جہاں رفع الیدین کا سنت متواترہ ہونا ثابت کیا ہے وہاں دوسری طرف عدم رفع الیدین کے متعلق اہل الرائے والقیاس کے بودے اور کمزور دلائل کا تانا بانا بھی بیان کر دیا ہے اور جمہور محدثین، محققین اور حدیث کے ناقدین سے ان دلائل کی اصل حیثیت اور ان کے ناقابل عمل ہونے کا ثبوت بھی پیش کر دیا ہے اور موجودہ دور کے بعض اہل الرائے والقیاس و التقلید کے جھوٹ و فریب کے پردوں کو بھی چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے علم عمل اور عمر میں اضافہ فرمائے اور انھیں باطل فرقوں کے خلاف ہر محاذ پر سرخرو فرمائے اور باطل فرقوں کو ہر محاذ پر ہزیمت اور ذلت و رسوائی سے دوچار فرمائے، آمین۔
اس کتاب کے بعد ان شاء اللہ عنقریب مسئلہ آمین بالجہر، فاتحہ خلف الامام اور سینہ پر ہاتھ باندھنے کے متعلق بھی موصوف کی کتب شائع ہوں گی اور نماز پر ایک جامع اور مکمل کتاب بھی زیر ترتیب ہے۔ اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی کچھ لٹریچر طباعت کے انتظار میں ہے۔( بحمد اللہ کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں)
(ڈاکٹر ابو جابر عبد اللہ وامانوی)
(یکم محرم الحرام 1411ھ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے