سنت پر رائے کو ترجیح دینا: شرعی حیثیت اور دلائل
ماخوذ: فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 158

سنتِ ثابتہ (صحیح حدیث) پر رائے کو مقدم کرنے والے مسلمان کی شرعی حیثیت

سوال:

سنتِ صحیحہ پر اپنی رائے کو مقدم کرنے والے شخص کے بارے میں شرعی فتویٰ کیا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔

واضح اصول: نصوص پر رائے کو ترجیح دینا گمراہی ہے

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات نہایت روشن اور قطعی ہے کہ حدیث قرآن کریم کی تشریح اور تفسیر کا دوسرا بنیادی ماخذ ہے۔ تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کسی مسئلہ کے بارے میں نص (واضح حکم) موجود ہو، تو اسی پر اعتماد اور عمل کرنا شرعاً واجب ہے۔

ایسا شخص جو سنتِ ثابتہ کو چھوڑ کر اپنی یا کسی اور کی رائے کو ترجیح دیتا ہے، وہ حدودِ شرعیہ سے تجاوز کرنے والا ہے۔

امام شافعیؒ کا واضح فیصلہ:

"اذا كا ن لله فى الواقعة حكم فعلىٰ كل مسلم اتياعة.”
(السنة الجنة ص205)
’’جب کسی معاملہ میں اللہ کا کوئی حکم موجود ہو تو ہر مسلمان پر اس کی اتباع واجب ہے۔‘‘

قرآن کریم کی ہدایات:

سورۃ المائدہ، آیت 44:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الكـفِرونَ﴾
’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ کافر ہیں۔‘‘

سورۃ المائدہ، آیت 45:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ﴾
’’وہ لوگ جو اللہ کے نازل کردہ حکم سے فیصلہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔‘‘

سورۃ المائدہ، آیت 47:
﴿وَمَن لَم يَحكُم بِما أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولـئِكَ هُمُ الفـسِقونَ﴾
’’جو لوگ اللہ کے نازل کردہ حکم سے فیصلہ نہ کریں، وہ فاسق ہیں۔‘‘

سورۃ الحجرات، آیت 1:
﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللَّهِ وَرَسولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَميعٌ عَليمٌ﴾
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو، اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘

تشریح:
جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کسی بات کو دین کا حصہ قرار نہ دیں، تو بندے کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے دین میں شامل کرے۔ جب ان دونوں کی طرف سے کسی چیز کا حکم نہ ہو، تو فتویٰ دینے کا اختیار بھی نہیں۔

سنت رسول ﷺ کی روشنی میں:

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت:
"من قال فى القرآن برأيه فليتبوا مقعده من النار.”
(جامع الترمذى، مشكوة ص35)
’’جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کی، وہ جہنم میں اپنی جگہ تیار کر لے۔‘‘

جندب رضی اللہ عنہ کی روایت:
"من قال فى القرآن برايه فاصاب فقد أخطاء.”
(عون المعبود، مشكوة ص35)
’’جو اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرے، خواہ درست ہی ہو، تب بھی وہ خطا کار ہے۔‘‘

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ:
"افتوابالرأى فضلوا واضلوا.”
(مجمع الزوائد)
’’انہوں نے رائے سے فتوے دیے، پس خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت:
"من افتى بغير علم كان اثمه على من افتاه.”
(رواه ابو داؤد، مشكوة ص35)
’’جو بغیر علم کے فتویٰ دے، اس کا گناہ مفتی پر ہو گا۔‘‘

متفق علیہ حدیث:
"اتخذا الناس رؤسا جهالا مسئلوا فافتوابغير علم فضلوا واضلوا.”
’’لوگ جاہلوں کو سردار بنائیں گے، وہ بے علم فتویٰ دیں گے اور یوں سب گمراہی کا شکار ہوں گے۔‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث:
"فَإِذَا عَمِلُوا بِالرَّأْيِ ضَلُّوا.”
(مفتاح الجنۃ ص208)
’’جب امت اپنی رائے پر عمل کرنے لگے گی، تو گمراہی میں پڑ جائے گی۔‘‘

اقوالِ صحابہ کی روشنی میں:

میمون بن مہران تابعی:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے قرآن سے فیصلہ فرماتے، پھر سنت تلاش کرتے، اگر نہ پاتے تو صحابہ کرام سے مشورہ کرتے اور ان کی متفقہ رائے پر فیصلہ صادر کرتے۔
(سنن دارمی، الانصاف شاہ ولی اللہ ص38)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول:
"ان الرأى انما كان من رسول اللهﷺ وحيا…”
(اعلام الموقعين، مفتاح الجنة)
’’نبی ﷺ کی رائے وحی پر مبنی تھی، ہماری رائے محض ظن اور تکلف ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول:
"اياكم واصحاب الراى فانهم اعداء السنن…”
(الرساله، مفتاح السنه ص209)
’’اصحاب الرائے سے بچو، وہ سنت کے دشمن ہیں، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی کیا۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول:
"لوكان الدين بالرأى فكان اسفل الخف اولىٰ بالمسح من اعلاه.”
(مفتاح النسة ص209)
’’اگر دین کا دارومدار رائے پر ہوتا تو موزے کے نیچے کا حصہ مسح کے زیادہ لائق ہوتا۔‘‘

امام شافعی کا نقل کردہ واقعہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انگلیوں کی دیت مختلف مقرر کی، مگر جب نبی ﷺ کا مکتوب ملا جس میں ہر انگلی کی دیت 10 اونٹ لکھی تھی، تو انہوں نے اپنی رائے واپس لے لی۔

امام زہریؒ کا قول:
"دعوا السنة تمضى لاتعرضوا لها بالراى.”
’’سنت کو اپنی حالت پر رہنے دو، اس پر رائے سے اعتراض نہ کرو۔‘‘

حضرت ایوب سختیانیؒ:
"قيل للحمار لا تحبر قال اكره مضغ الباطل.”
’’گدھے سے کہا گیا تو جگالی کیوں نہیں کرتا؟ اس نے جواب دیا: میں باطل کو چبانا پسند نہیں کرتا۔‘‘

خلاصہ:

❀ دین میں بدعت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخص نصوص کے مقابلے میں اپنی یا کسی اور کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔

❀ رائے کو سنت پر مقدم کرنا گمراہی کا سبب بنتا ہے۔

❀ بدعات کا پھیلاؤ اس وقت بڑھتا ہے جب سنت کو ترک کر دیا جاتا ہے اور رائے کی پیروی عام ہو جاتی ہے۔

نوٹ: ہم اس رائے کی مذمت کرتے ہیں جو قرآن و حدیث کے مقابلے میں پیش کی جائے، نہ کہ اجتہاد و قیاس کی جو نص کے تابع ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے