سوال
اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بارے میں سلف صالحین کا کیا عقیدہ ہے؟ اور اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، اس لیے رویتِ الٰہی کا مطلب کمال یقین ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں قیامت کے دن دیدارِ الٰہی کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ ﴿٢٢﴾ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ ﴿٢٣﴾
… سورة القيامة
’’اس روز بہت سے چہرے پر رونق ہوں گے (اور) اپنے پروردگار کے دیدار میں محو ہوں گے۔‘‘
دیدارِ الٰہی کا ثبوت قرآن سے
◈ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے "دیکھنے” کی نسبت چہروں کی طرف کی ہے۔
◈ چہرے جس ذریعے سے دیکھ سکتے ہیں وہ آنکھ ہی ہے، اس لیے ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کا دیدار آنکھوں سے ہوگا۔
◈ تاہم، اللہ تعالیٰ کا دیدار اس کے احاطے کا تقاضا نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلا يُحيطونَ بِهِ عِلمًا﴾
… سورة طه: ١١٠
’’اور وہ اپنے علم سے اللہ کا احاطہ نہیں کر سکتے۔‘‘
◈ جب علمی لحاظ سے ہم اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتے، تو بصری لحاظ سے بھی احاطہ ممکن نہیں۔
◈ اس بات کو مزید وضاحت سے یوں بیان کیا گیا ہے:
﴿ لا تُدرِكُهُ الأَبصـرُ وَهُوَ يُدرِكُ الأَبصـرَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ ﴿١٠٣﴾﴾
… سورة الأنعام
’’(وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کر سکتا ہے۔‘‘
سلف صالحین کا اجماعی عقیدہ
◈ سلف کا یہی عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان کو دیدارِ الٰہی کی سعادت حاصل ہوگی۔
◈ ان کے نزدیک آخرت میں بندے کے لیے سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔
◈ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
«اَسْأَلُکَ لَذَّةَ النَّظْرِ اِلَی وَجْهِکَ»
(سنن النسائی، السهو، باب نوع آخر من الدعاء، ح: ۱۳۰۶ ومسند احمد: ۱۹۱/۵)
’’میں تجھ سے تیرے چہرہ اقدس کی طرف دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
◈ یہ دعا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دیدارِ باری تعالیٰ کی لذت ایک عظیم نعمت ہے، جو صرف انہی کو نصیب ہوگی جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازے گا۔
رویتِ الٰہی کو کمال یقین قرار دینا: ایک باطل دعویٰ
◈ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا اور رویتِ الٰہی کا مطلب کمال یقین ہے، اس کا یہ قول باطل، دلائل کے خلاف اور امرِ واقع کے منافی ہے۔
◈ دنیا میں بھی کمال یقین پایا جاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الأحسان اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ کَاَنَّکَ تَرَاهُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاهُ، فَاِنَّهُ يَرَاکَ»
(صحیح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبیﷺ عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸)
’’(احسان یہ ہے) کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں تو بہرحال دیکھ رہا ہے۔‘‘
◈ یہاں کمال یقین کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت اس شعور کے ساتھ کی جائے گویا بندہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے، لیکن یہ رویتِ باری تعالیٰ نہیں بلکہ ایک قلبی کیفیت ہے۔
◈ اس لیے رویتِ الٰہی کو صرف کمال یقین سے تعبیر کرنا سراسر باطل، قرآن و سنت کے نصوص کی تحریف اور ان کی حقیقی مراد سے انحراف ہے۔
نتیجہ
◈ دیدارِ الٰہی حق ہے اور سلف صالحین کا اس پر اجماع ہے۔
◈ قیامت کے دن مومنین کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا آنکھوں سے دیدار نصیب ہوگا، مگر اس دیدار میں ذاتِ باری تعالیٰ کا بصری احاطہ ممکن نہیں۔
◈ رویتِ الٰہی کو صرف کمال یقین قرار دینا قرآن، سنت، اور اجماعِ سلف کے خلاف ہے اور یہ تحریف فی النصوص کے مترادف ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب