سفید بال رنگنے کا حکم اور سیاہ رنگ سے پرہیز – حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، صفحہ 524

سوال کی وضاحت اور حدیث کا پس منظر

حدیث شریف میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"یہود و نصاریٰ سفید بالوں کو رنگتے نہیں، تم ان کی مخالفت کرو، سفید بالوں کو رنگو مگر سیاہ نہ کرو۔”

سوال یہ ہے کہ اس حکم کی وضاحت کی جائے۔ آپ نے پہلے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب تمام بال سفید ہو جائیں اور ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال کرنے والے کا کہنا ہے کہ انہیں اس وضاحت سے اطمینان حاصل نہیں ہوا، کیونکہ اس بات کی کوئی صریح دلیل نہیں ملی کہ یہ حکم صرف اسی وقت ہے جب تمام بال سفید ہو جائیں۔

بلکہ، ایک حدیث سے یہ بات ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے سفید بال گنے جا سکتے تھے، یعنی آپ کے سفید بال کم اور سیاہ بال زیادہ تھے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جب سفید بال کم اور سیاہ بال زیادہ ہوں تو نہ رنگنے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی واضح دلیل نہیں ملتی کہ اگر تمام بال سفید ہو جائیں تو رنگنا لازم یا بہتر ہے۔

مزید یہ کہ آج کل ایسے حضرات بھی پائے جاتے ہیں جو رنگنے کے قائل نہیں اور وہ تمام بال سفید ہو جانے کے بعد بھی رنگ نہیں کرتے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح مسلم، کتاب اللباس میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے والد محترم ابو قحافہ رضی الله عنہ کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ اس وقت ان کا سر اور داڑھی بالکل سفید ہو چکی تھی، جیسے ثغامہ نامی پودے کے پھول سفید ہوتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

"اس کے سفید بالوں کو بدل دو اور سیاہ رنگ سے بچو۔”

حاصلِ کلام

اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سفید بالوں کو رنگنا جائز اور سنت ہے، لیکن سیاہ رنگ سے بچنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے