سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی تدلیس کا تحقیقی جائزہ: راجح موقف اور ائمہ کے اقوال
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، اصول، تخریج اور تحقیقِ روایات – صفحہ 570

سوال

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تدلیس کے متعلق راجح موقف کیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی تدلیس:

◈ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ایک ثقہ امام، فقیہ، مجتہد اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ مدلس بھی تھے۔
◈ وہ ضعفاء و دیگر رواۃ سے تدلیس کیا کرتے تھے۔
◈ اس لیے جب ان کی معنعن روایت صحیحین (بخاری و مسلم) کے علاوہ پائی جائے اور:
نہ متابعت ہو، اور
نہ ہی تصریحِ سماع ہو
تو ایسی روایت ضعیف و مردود شمار کی جاتی ہے۔

طبقاتِ مدلسین میں مقام:

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا ان کو "طبقہ ثانیہ” میں شمار کرنا درست نہیں۔
◈ بلکہ وہ "طبقہ ثالثہ” کے فرد ہیں، جیسا کہ حافظ العلائی (درست یہ ہے کہ حاکم) نے انہیں طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔

جامع التحصیل، صفحہ 99
نور العین، صفحہ 127، طبع جدید صفحہ 138

حافظ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول:

"وأما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا، مثل الثوري والأعمش وأبي إسحق واضرابهم”
الاحسان، جلد 1، صفحہ 90، نیز دوسرا نسخہ: جلد 1، صفحہ 161

◈ یعنی:
وہ مدلس رواۃ جو ثقہ اور عادل ہیں، ان کی روایت کو اس وقت تک حجت نہیں مانا جاتا جب تک وہ تصریحِ سماع نہ کریں۔
مثال کے طور پر: سفیان ثوری، اعمش، ابو اسحاق اور ان جیسے دوسرے رواۃ۔

راقم الحروف کا موقف:

◈ یہی تحقیق راجح اور صحیح ہے۔
◈ راقم نے اسی موقف کو درج ذیل مقامات پر اختیار کیا ہے:
نورالعین (طبع جدید صفحہ 134، 138)
التأسیس فی مسئلہ التدلیس
مطبوعہ: ماہنامہ محدث لاہور، جنوری 1996ء، جلد 27، عدد 4، نیز ماہنامہ الحدیث حضرو، صفحہ 33

رجوع:

عبدالرشید انصاری صاحب کے نام راقم کے ایک خط (مورخہ 19/1408ھ) میں سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا گیا تھا:

"طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کی تدلیس مضر نہیں ہے۔”
جرابوں پر مسح، صفحہ 40

◈ یہ بات غلط ہے، اور میں اس سے رجوع کرتا ہوں۔
لہٰذا یہ موقف منسوخ اور کالعدم تصور کیا جائے۔

عینی حنفی کا بیان:

"وسفيان من المدلسين والمدلس لا يحتج بعنعنته إلا أن يثبت سماعه من طريق آخر”
عمدۃ القاری، جلد 3، صفحہ 112
شہادت، اپریل 2003ء

◈ یعنی:
سفیان ثوری مدلسین میں سے ہیں، اور مدلس کی "عن” والی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی
جب تک کہ دوسری سند سے سماع کی تصریح ثابت نہ ہو جائے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1