سفر میں روزہ کتنی مسافت پر معاف ہے؟ دلائل کے ساتھ وضاحت
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 578

سوال

سفر میں روزہ معاف ہے لیکن کتنی مسافت پر معاف ہے؟ براہ کرم صحیح دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں، اور ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بارے میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی روایت نہیں ملی جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ آپ ﷺ نے کوئی حد مقرر فرمائی ہو۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اذا لیس فلیس وَلَمْ یَکُنْ مِنْ ھَدْیِه ﷺ تَقْدِیرُ المُسَافَۃِ الَّتِی یُفطِرُ فِیہَا الصائم بحَدٍّ والاصحَّ عَنه فِی ذلک شئی۔
(زاد المعاد فی ھدی خیر العباد للامام ابن القیم ج۱، طبع مصر قدیم ص۱۶۲، طبع جدید)

’’آپ ﷺ سے مسافت کے بارے میں کوئی صحیح روایت ثابت نہیں کہ جس سے اس کی کوئی حد معلوم ہوتی ہو۔‘‘

صحابہ کرام کے آثار

وحیہ بن خلیفہ کلبی

ابن قیم رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:

وَقَد أَفْطَرَ دِحبَة بن خلیفة الکلبی فی فسر ثلاثة أمبالٍ وقال لِمن صام قَدْ رَغِبَ عَن ھدی محمد ﷺ۔

’’وحیہ بن خلیفہ کلبی نے تین میل سفر کرنے کے بعد افطار کیا اور کہا: جو شخص روزہ رکھتا ہے، اس نے محمد ﷺ کی سنت سے اعراض کیا۔‘‘

عام صحابہ کرام کا عمل

پھر وہ لکھتے ہیں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفر پر نکلتے تو روزہ افطار کر دیتے، چاہے ابھی آبادی سے باہر بھی نہ نکلے ہوتے۔ اور وہ کہا کرتے کہ یہ سنت اور طریقہ نبی ﷺ کا ہے۔

عِبَرَتُه ھٰکَذَا وَکَانَ الصَّحَابَة حِینَ ینشؤن السفر یفطرون من غیر اعتبار مجاوزة البیوت ویخبرون أن ذلک سنته وھدیه ﷺ۔

حضرت ابو بصرة غفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ

ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

قال عب ید بن جبیر ركبت مَعَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفِينَةٍ مِنَ الْفُسْطَاطِ فِي رَمَضَانَ فَلَمْ يُجَاوِزِ الْبُيُوتَ حَتَّى دَعَا بِالسُّفْرَةِ، قَالَ: اقْتَرِبْ قُلْتُ: أَلَسْتَ تَرَى الْبُيُوتَ، قَالَ أَبُو بَصْرَةَ «أَتَرْغَبُ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

امام احمد کی روایت میں بھی اسی طرح کا واقعہ بیان ہوا ہے:

رَكِبْتُ مَعَ أَبِي بَصْرَةَ مِنَ الْفُسْطَاطِ إِلَى الْإِسْكَنْدَرِيَّةِ فِي سَفِينَةٍ، فَلَمَّا دَفَعْنَا مِنْ مَرْسَانَا أَمَرَ بِسُفْرَتِهِ فَقُرِّبَتْ، ثُمَّ دَعَانِي إِلَى الْغَدَاءِ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَصْرَةَ، وَاللهِ مَا تَغَيَّبَتْ عَنَّا مَنَازِلُنَا بَعْدُ؟ فَقَالَ: ” أَتَرْغَبُ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ” قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَكُلْ فَلَمْ نَزَلْ مُفْطِرِينَ حَتَّى بَلَغْنَا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا عمل

مزید لکھتے ہیں:

وقال مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَتَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ وَهُوَ يُرِيدُ السَّفَرَ أَوْ قَدْ رُحِّلَتْ لَهُ رَاحِلَتُهُ وَقدلَبِسَ ثِيَابَ السَّفَرِ فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلَ فَقُلْتُ لَهُ سُنَّةٌ فَقَالَ سُنَّةٌ ثُمَّ رَكِبَ۔ قال الترمذی حدیث حسن وقال الدار قطنی فیه فاکل وقد تقارب غروب الشمس۔

خلاصہ ابن قیم رحمہ اللہ کا کلام

ان سب آثار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
◈ اگر کوئی شخص رمضان میں سفر شروع کرے تو وہ روزہ افطار کر سکتا ہے۔
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول بھی یہی تھا۔
◈ وہ سفر کے آغاز ہی میں، حتی کہ آبادی سے باہر نکلنے سے پہلے بھی، افطار کر لیا کرتے تھے۔
(کذا فی زاد المعاد ج۱، ص۱۶۲)

دیگر اقوال

امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ: جس مسافت میں نماز قصر جائز ہے، اسی مسافت میں روزہ بھی معاف ہے۔
◈ بعض احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص طاقت رکھتا ہو وہ سفر میں روزہ رکھ لے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
◈ بہر حال، مسافت کے بارے میں نبی ﷺ سے کوئی روایت ثابت نہیں۔
◈ مختلف آثار میں الگ الگ مسافت کا ذکر آیا ہے، بعض نے 48 میل بتائی ہے۔
◈ امام شوکانی رحمہ اللہ اور دیگر محققین اہل حدیث کا موقف یہ ہے کہ اصل اعتبار سفر کے آغاز کا ہے، نہ کہ کسی مقررہ مسافت کا۔

نتیجہ

حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ سے مسافت کی کوئی واضح حد مقرر نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار اور محققین اہل علم کے اقوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سفر کے آغاز ہی سے روزہ افطار کیا جا سکتا ہے، خواہ مسافت تھوڑی ہو یا زیادہ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے