سفرِ ہجرت کا واقعہ: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور چرواہے کا قصہ
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سفر ہجرت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:

جواب:

إذا أنا براعي غنم مقبل بغنمه إلى الصخرة، يريد منها الذى أردنا، فلقيته فقلت: لمن أنت؟ يا غلام فقال: لرجل من أهل المدينة، قلت: أفي غنمك لبن؟ قال: نعم، قلت: أفتحلب لي؟ قال: نعم
میرا گزر بکریوں کے ایک چرواہے کے پاس سے ہوا، جو بکریاں لے کر چٹان کی طرف آرہا تھا، وہ بھی اسی (سائے) کی طرف جا رہا تھا، جس کی طرف ہم جا رہے تھے، میری اس سے ملاقات ہوئی، تو میں نے پوچھا: اے غلام! تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے کہا: مدینہ سے، میں نے کہا: کیا تمہاری بکریوں میں کوئی دودھ والی بکری ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: کیا تم میرے لیے دودھ نکال سکتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں، نکال سکتا ہوں۔
(صحیح مسلم: 2009)
سوال یہ ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے غلام سے بکری کا دودھ کیوں لیا، جبکہ غلام نے بکریوں کے مالک سے اجازت نہیں لی؟
اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں، جن میں دو جواب عمدہ ہیں:
➊ عربوں میں مہمان نوازی کا رواج تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی مہمان تھے، تو غلام نے مہمان نوازی کے لیے دودھ دے دیا۔
➋ ہو سکتا ہے کہ بکریوں کے مالک نے غلام کو بقدر ضرورت دودھ استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہو، جس کی بنا پر اس نے اپنے اختیار سے دودھ پلا دیا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے