سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو قبر کے بھینچنے سے متعلق وضاحت
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا شمار ان عظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور قرب کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے فضائل سے متعلق احادیثِ مبارکہ میں متعدّد روایات موجود ہیں، جن میں سے ایک اہم روایت یہ ہے کہ آپ کی وفات پر عرشِ الٰہی نے حرکت فرمائی، آسمان کے دروازے کھولے گئے، اور ستر ہزار فرشتوں نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ اس کے باوجود، قبر نے آپ کو مختصر سا بھینچا، پھر اس تنگی کو دور کردیا گیا۔ ذیل میں اس واقعے کی تفصیل اور اہم نکات ان کے حوالوں کے ساتھ پیش ہیں:

1. حدیث کا حوالہ اور متن

➊ سنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"هَذَا الَّذِي تَحَرَّكَ لَهُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ”
(سنن النسائی، حدیث نمبر: 2057، کتاب الجنائز)

"یہ وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے۔ (پھر بھی قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ عذاب) اس سے جاتا رہا۔”

  • اس حدیث میں جن صحابی کا ذکر ہے وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں۔

  • یہی روایت دلائل النبوۃ للبیہقی، ج4، ص28 میں بھی موجود ہے اور اس کی سند کو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے۔
  • بعض دیگر محدثین نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے (مثلاً صحیح سنن النسائی، حدیث نمبر 2057

2. سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی عظمت کے مظاہر

عرش کا جھومنا یا حرکت کرنا

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر عرشِ الٰہی حرکت میں آیا۔ (سنن النسائی، حدیث نمبر: 2057)
  • بعض شارحینِ حدیث نے اس کے لیے لفظ ”جھومنا“ بھی استعمال کیا ہے۔ (حافظ محمد امین حفظہ اللہ، فوائد السنن النسائی، تحت الحدیث 2057)۔

آسمان کے دروازوں کا کھلنا

  • آپ کی روح کے استقبال کے لیے آسمان کے دروازے بھی کھول دیے گئے۔(سنن النسائی، حدیث نمبر: 2057)۔
  • یہ آپ کے عظیم مقام کی دلیل ہے کہ آسمانوں میں بھی آپ کے استقبال کی تیاریاں کی گئیں(ملاحظہ ہو: دلائل النبوۃ للبیہقی، ج4، ص28)۔

ستر ہزار فرشتوں کی شرکت

  • جنازے میں ستر ہزار فرشتوں کی شرکت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ اللہ کے محبوب بندوں میں سے تھے (سنن النسائی، حدیث نمبر: 2057)۔

3. قبر کا بھینچنا (ضمّۂ قبر)

حدیث کے الفاظ میں وضاحت

  • مذکورہ حدیث کے آخری الفاظ ہیں:
    "لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً، ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ”
    (سنن النسائی، حدیث نمبر: 2057)

کیا یہ عذابِ قبر تھا؟

احادیث کے مختلف شروح کے مطابق یہ "ضمّۂ قبر” مومن کے لیے عذاب کی صورت میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو کمزوریوں کا کفارہ یا محبت کا اظہار بن جاتی ہے (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، جلد 1، ص232؛ الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 327/40 رقم: 24283)۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے مطابق یہ ضمّہ (دباؤ) مومن کے لیے عذابِ قبر نہیں، بلکہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ہر انسان کو (انبیائے کرام کے علاوہ) پیش آتی ہے تاکہ معمولی لغزشوں کا ازالہ ہوجائے (سیر اعلام النبلاء، جلد1، ص290)۔

4. اس واقعے سے ملنے والے اہم دروس

غیر انبیاء کے لیے معمولی لغزش کا بھی ازالہ

  • اللہ تعالیٰ مومن کو پاک صاف کرکے اپنے پاس بلانا چاہتا ہے۔

اپنی آخرت کی فکر

  • اگر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جیسے صاحبِ فضیلت کو بھی قبر نے بھینچا، تو ہمیں بھی اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔

فضائلِ صحابہ اور احترامِ صحابہ

  • یہ واقعہ صحابہ کرام کے احترام اور ان کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

5. اختتامیہ

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کے قبولِ حق کے نتیجے میں پورے قبیلے نے اسلام قبول کیا، اور جن کی وفات پر عرشِ الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دیے گئے، اور ستر ہزار فرشتوں نے جنازے میں شرکت کی۔

  • قبر کی آزمائشوں سے بچنے کے لیے ہر مسلمان کو ایمان اور اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے۔
  • اللہ تعالیٰ بعض اوقات مختصر سی آزمائش میں ڈال کر مومن کے درجات بلند فرماتا ہے۔
  • ہمیں اپنی آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔

اَللّٰھُمَّ احْشُرْنَا مَعَ الصَّالِحِیْنَ وَارْزُقْنَا الصُّحْبَةَ الْحَسَنَةَ فِیْھِمْ بِرَحْمَتِکَ۔ آمین۔

اہم مراجع (References)

  • سنن النسائی: حدیث نمبر 2057، کتاب الجنائز
  • دلائل النبوۃ للبیہقی: جلد 4، صفحہ 28
  • سیر اعلام النبلاء: امام ذہبی، جلد 1، صفحہ 290
  • الموسوعة الحدیثیہ مسند الإمام أحمد: جلد 40، صفحہ 327، حدیث رقم 24283
  • مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: جلد 1، صفحہ 232
  • فضائل الصحابہ: امام احمد بن حنبل، جلد 1، حدیث نمبر 63

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1