سوال
سر منڈانا منع ہے اور خارجیوں سے مشابہت ہے، حدیث شریف کی وضاحت
قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیہ وسلم سِیْمَاہُمْ (ای الْخَوَارِج) اَلتَّحْلِیْقُ
بخاری
ان کی علامت (یعنی خارجیوں کی) سر منڈانا ہے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سر منڈانا شرعاً درست ہے، اس کی ممانعت نہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
اِحْلِقُوْہُ کُلَّہُ أَوِ اتْرُکُوْہُ کُلَّہُ
ابوداود، المجلد الثانی، کتاب الترجل، باب فی الصبی لہ ذوابۃ
[سارے سر کا حلق کرو یا سارے کو چھوڑ دو]
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہے:
لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَآئَ اﷲُ اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لاَ تَخَافُوْنَ
الفتح، 27، ص 26
[تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سر منڈائے اور بال ترشوائے ہوئے ہو گے، کسی کا خوف تم کو نہ ہو گا]
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے احرام کھولنے کے موقع پر سر منڈایا، اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:
اَللّٰہُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِیْنَ قَالُوْا وَالْمُقَصِّرِیْنَ
بخاری شریف، کتاب الحج، باب الحلق والتقصیر عند الحلال
[اے اللہ! رحمت فرما سر منڈانے والوں پر۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: اور بال ترشوانے والوں پر بھی۔]
ہاں، افضل اور سنت یہی ہے کہ احرام کھولنے کے علاوہ حالت میں وفَرہ، جُمَّہ اور لِمَّہ کے مطابق بال رکھے جائیں، کیونکہ احادیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے۔ اس لیے افضل یہ ہے کہ احرام کھولتے وقت سر منڈایا جائے، اور باقی وقت بال اسی سنت کے مطابق رکھے جائیں۔
جہاں تک حدیث سِیْمَاہُمْ اَلتَّحْلِیْقُ کا تعلق ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو خارجی ہے وہ سر منڈاتا ہے، نہ کہ یہ مطلب لیا جائے کہ جو سر منڈاتا ہے وہ لازمی خارجی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب