سرمایہ داری، کلاسیکل اور اسلامی معیشت کا تنقیدی تجزیہ

سرمایہ داری کی علمیت میں معاشیات کا کردار

معاشیات کا آغاز جدید دور میں سرمایہ داری کے تحت ہوا اور اسے سوشل سائنسز میں ایک کلیدی حیثیت دی گئی۔ اٹھارویں صدی میں ایڈم اسمتھ نے اس کی بنیاد رکھی، جو لاک اور ہیوم جیسے فلسفیوں سے متاثر تھا۔ اسمتھ کی تصانیف "The Theory of Moral Sentiment” اور "Inquiry into the Nature and Causes of the Wealth of Nations” اہم مانی جاتی ہیں۔

 کلاسیکل معاشیات (1729-1930)

اس دور میں ایڈم اسمتھ کے علاوہ ڈیوڈ ریکارڈو، مالتھوس، بینتھم، جون اسٹیورٹ مل اور الفریڈ مارشل جیسے مفکرین نے اہم کردار ادا کیا:

  • ڈیوڈ ریکارڈو: نظریہ پیداوار اور نظریہ قدر پر کام
  • مالتھوس: آبادی کو پیداوار کا مسئلہ قرار دیا
  • بینتھم اور ملز: تسکین اور لذت پسندی کے نظریات
  • الفریڈ مارشل: افادہ کو طلب و رسد سے جوڑا

مارکس کا رد عمل:

کارل مارکس نے کلاسیکل معاشیات پر شدید تنقید کی اور اینجلز کے ساتھ مل کر اشتراکیت کے نظریات پیش کیے۔ ان کی مشہور کتاب "داس کیپٹل” 1867 میں شائع ہوئی۔

 معیشت کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ

الف) فرد کی سطح پر معاشیات

تعقل (Rationality):

سرمایہ دارانہ معاشیات کے مطابق ہر فرد اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ ایڈم اسمتھ، بینتھم اور ملز نے افادے کے نظریات کو بیان کیا۔

نظریہ طلب و رسد:

طلب اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب قیمتیں کم ہوں۔ مارشل کے مطابق، فرد اپنی خواہشات کی بنیاد پر چیزوں کی طلب کرتا ہے، لیکن محدود آمدنی اور قیمتیں رکاوٹ بنتی ہیں۔

قیمتوں کا تعین:

کلاسیکل معاشیات میں قیمتوں کا تعین طلب و رسد کی بنیاد پر ہوتا ہے، لیکن عملی طور پر سرمایہ دار قیمتوں کا تعین خود کرتے ہیں، جس کی وجہ سے افراطِ زر پیدا ہوتا ہے۔

ب) معاشرتی سطح پر اثرات

یہ نظریات حرص، خود غرضی اور مقابلہ بازی کو فروغ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو مکمل طور پر مارکیٹ کی بالادستی میں ہوتا ہے۔

ج) ریاست کی سطح پر کردار

کلاسیکل مفکرین (سوائے مارکس کے) ریاست کی معاشی معاملات میں مداخلت کے خلاف تھے اور مارکیٹ کی مکمل آزادی کے حامی تھے۔

 کینزین معیشت (1930-1970)

1930 کی عظیم کساد بازاری نے کلاسیکل معاشیات کو چیلنج کیا، جس کے بعد لارڈ کینز نے ریاستی مداخلت پر زور دیا۔ کینز کے مطابق معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے مالیاتی پالیسی کا اہم کردار ہے۔ ان کی تجاویز پر عمل کرتے ہوئے بریٹن ووڈ سسٹم قائم کیا گیا، جس کے تحت آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی نظام کا قیام عمل میں آیا۔

 نیو کلاسیکل معاشیات

1960 کے بعد نیو کلاسیکل معاشیات کا دور شروع ہوا، جس میں فریڈمین، لوکاس اور سارجنٹ جیسے مفکرین نے حکومتی مداخلت کی مخالفت کی۔ اس دور میں کارپوریشنز کو معیشت پر مکمل اختیار حاصل ہوا، جس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معیشت نے مزید وسعت حاصل کی۔

اسلامی معیشت کا تنقیدی جائزہ

اسلامی معیشت کا آغاز

بیسیویں صدی کے آخر میں شاہ فیصل اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسلامی معیشت کو فروغ دیا گیا۔ اسلامی معیشت دان سرمایہ داری کے اصولوں میں اسلامی عناصر شامل کرکے بلا سودی نظام کو رائج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلامی معیشت دانوں کی بنیادی غلطی

  • سرمایہ داری کو باطل نظام نہ سمجھنا
  • اسلام کو مکمل نظام کے بجائے ایک اخلاقی ضابطہ تصور کرنا
  • معاشیات کے اصولوں کو غیر اقداری سمجھ کر ان میں اسلامی جواز تلاش کرنا

سرمایہ داری کا اسلامی معاشروں میں اثر

جس طرح سرمایہ داری نے مغرب میں پروٹسٹنٹ عیسائیت کا سہارا لیا، اسی طرح اسلامی معاشروں میں وہ اسلامی معیشت کا سہارا لے رہی ہے۔

نتیجہ: سرمایہ داری اور اسلامی معیشت کی حقیقت

سرمایہ داری نجی ملکیت کے بجائے کارپوریشنز کو تقویت دیتی ہے، جبکہ اسلامی معیشت دان اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے سرمایہ داری کو ایک معاشی نظریہ تصور کرتے ہیں۔ حقیقی اسلامی معاشرہ وہ ہوگا جہاں معیشت اسلامی اقدار کے تابع ہو اور سرمائے کی بڑھوتری مقصد نہ ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1