سرمایہ داری، مارکیٹ اور اسلامی مالیاتی نظام کا تقابلی جائزہ
تحریر: محمد یونس قادری

سرمایہ اور دولت میں فرق

سرمایہ وہ چیز ہے جس کا مقصد محض بڑھوتری برائے بڑھوتری ہوتا ہے، جبکہ دولت کے برعکس سرمایہ کی بنیاد آزادی پر ہوتی ہے۔ دولت میں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے، مگر سرمایہ ان اصولوں سے ماورا ہوتا ہے۔ سرمایہ انسان کے اندر دنیاوی لالچ اور دوسروں سے حسد کی شکل میں پروان چڑھتا ہے۔ مغربی تصورِ آزادی میں سرمائے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور اس کے بغیر آزادی ممکن نہیں سمجھی جاتی۔

سرمائے اور دولت میں فرق

  • سرمایہ: یہ محض بڑھنے کی خواہش ہے اور اپنی اصل میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر بڑھتا ہے۔
  • دولت: یہ کسی مادی شے یا سرمایہ کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ اگر دولت ناجائز ذرائع یا سود کے ذریعے حاصل ہو تو حرام ہوتی ہے، اور اگر جائز اور حلال طریقے سے ہو تو حلال دولت کہلاتی ہے۔

مارکیٹ کیا ہے؟

مارکیٹ وہ جگہ ہے جہاں سرمائے کے متلاشی افراد اپنی آزادی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ مارکیٹ کا براہِ راست تعلق سرمایہ داری نظام سے ہے، اور یہ پورے معاشرے پر غلبہ حاصل کرکے اس کی اقدار کو بدل دیتی ہے۔

مارکیٹ اور بازار میں فرق

  • بازار: بازار کا وجود ماقبل سرمایہ داری نظام میں بھی تھا۔ یہ مخصوص تہذیب، اخلاقیات اور مذہبی اصولوں کے تحت چلتا ہے۔
  • مارکیٹ: مارکیٹ کا تعلق سرمایہ داری سے ہے اور یہ پورے معاشرے پر اپنی مرضی کے اصول لاگو کرتی ہے۔ اسلامی معاشروں میں بازار موجود ہو سکتے ہیں، لیکن اسلامی مارکیٹ کا تصور غیر اسلامی ہے کیونکہ مارکیٹ کے اصول سرمایہ داری سے ماخوذ ہوتے ہیں۔

مارکیٹ کی خصوصیات

1. مارکیٹ کا غلبہ

مارکیٹ پورے معاشرے پر غالب ہو جاتی ہے اور تمام سماجی اقدار کو سرمایہ داری کے مطابق ڈھال دیتی ہے۔ محبت، اخوت، اور ایثار جیسی قدریں ختم ہو کر حرص، لالچ اور خود غرضی کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔

2. ہر خواہش مساوی اور جائز

مارکیٹ میں ہر خواہش جائز سمجھی جاتی ہے، چاہے وہ عبادت ہو یا گناہ۔ عملی طور پر وہی خواہشات اہمیت رکھتی ہیں جو سرمائے میں اضافے کا سبب بنیں۔

3. نجی ملکیت کا خاتمہ

مارکیٹ میں نجکاری کا مطلب نجی ملکیت کا فروغ نہیں بلکہ اس کا خاتمہ ہے۔ کارپوریشنز کے ذریعے ملکیت کسی فرد کی نہیں بلکہ سرمائے کی بن جاتی ہے، اور افراد محض اس کے خادم بن کر رہ جاتے ہیں۔

4. ہر شخص مزدور بن جاتا ہے

سرمایہ داری میں ہر شخص اجرت پر کام کرنے والا مزدور بن جاتا ہے۔ مالک اور ملازم کے درمیان رشتہ اصل میں سرمائے کی غلامی کا ہوتا ہے۔

5. سود اور سٹے کی بالادستی

فنانشل مارکیٹ میں سود اور سٹہ غالب ہوتے ہیں، جہاں زر اور اسٹاک کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ اس طرح معیشت پیداواری عمل سے زیادہ مالیاتی منافع پر منحصر ہو جاتی ہے۔

6. قدر کا تعین سود اور سٹے سے

سرمایہ داری میں کسی شے کی قدر اس کی قیمت سے متعین ہوتی ہے، اور یہ قیمت فنانشل مارکیٹ کے سود اور سٹے کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔

مارکیٹ کے دو ادوار

فورڈ ازم (1933-1980)

یہ سرمایہ داری کا ابتدائی دور تھا جس میں اشتراکیت کا سامنا کرنے کے لیے سرمایہ داری نے مزدور اجتماعیت اور قومی اجتماعیت کا سہارا لیا۔

پس فورڈ ازم (1980 کے بعد)

یہ دور سرمائے کی مکمل آزادی کا تھا۔ اس میں ریاستیں سرمایہ داری کے تابع ہو گئیں، اور مزدور اجتماعیت ختم ہو گئی۔

مزدور اجتماعیت کا خاتمہ

پس فورڈ ازم کے دور میں مزدور اجتماعیت ختم ہو گئی اور ہر مزدور انفرادی اجرت پر کام کرنے لگا۔ اسے "انسانی سرمایہ” کہا جانے لگا، جہاں مزدور بھی سرمائے کا حصہ بن گیا۔

نتائج اور اسلامی متبادل کی ضرورت

تاریخی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ داری خود اپنی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ اس نظام میں سرمائے کی غلامی انسانیت کو بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے تحت بازار اور مالیاتی نظام کو فروغ دیا جائے، جہاں حلال ذرائع سے تجارت ہو اور سود و سٹے سے بچا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1