یورپ میں جاگیرداری سے سرمایہ داری کا سفر
یورپ میں سلطنتِ روم کے خاتمے کے بعد جاگیردارانہ نظام کا آغاز ہوا، جسے کلیسا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس نظام میں اقدار کا تعین مذہبی اصولوں پر کیا جاتا تھا، اور دنیاوی دولت اور طاقت کے ارتکاز کو منفی سمجھا جاتا تھا۔ عیسائی مذہب کے زیر اثر اخروی کامیابی کو دنیاوی ترقی پر ہمیشہ فوقیت دی جاتی تھی۔ کلیسا نے روما کے قوانین کو قبول کیا، لیکن عیسائی اقدار ان قوانین میں محدود انداز میں نظر آتی تھیں۔ وقت کے ساتھ کلیسا بھی اخلاقی بدعنوانیوں کا شکار ہوگیا اور پاپائے روم مغربی یورپ کا سب سے بڑا زمیندار بن گیا، جس سے عوام کا کلیسا پر اعتماد ختم ہونے لگا۔
پروٹسٹنٹ تحریک اور دنیا پرستی کا فروغ
پندرہویں صدی کے بعد پروٹسٹنٹ تحریکوں نے دنیا پرستی کو مذہبی جواز فراہم کرنا شروع کیا اور انفرادیت کا پرچار کیا۔ بادشاہوں کو مطلق حکمرانی کا حق "Divine Rights of King” کے تحت دیا گیا، جس نے حرص اور حسد کو سماجی طور پر تسلیم کروایا۔ پروٹسٹنٹ نظریے نے احتکار اور دولت کے ارتکاز کو خدائی نظام کا حصہ قرار دے دیا، اور خیرات کی جگہ بخل اور بچت کو اہمیت دی جانے لگی۔
سرمایہ داری کا ارتقاء
پہلا مرحلہ: لوٹ مار اور استحصال
سرمایہ داری کے ابتدائی مراحل میں تجارتی اور صنعتی مراکز میں حرص و حسد عام تھا۔ ریاستی طاقت کے ذریعے زرعی زمینوں پر قبضہ کیا گیا اور بیرونی ممالک میں وسائل کی لوٹ مار کی گئی۔ یورپی اقوام نے افریقہ، امریکا، آسٹریلیا، اور ایشیا میں شدید ظلم و ستم اور قتل و غارت کی تاریخ رقم کی۔
دوسرا مرحلہ: قومی ریاست اور فلاحی نظام
سرمایہ داری نے آہستہ آہستہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور قومی فلاحی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔ معاشرتی اقدار میں خودغرضی، حسد، اور حرص کو مرکزی مقام حاصل ہوگیا، اور جمہوریت کے ذریعے ان منفی رویوں کو فروغ دیا گیا۔
تیسرا مرحلہ: عالمی نظام کی جانب پیش قدمی
سرمایہ داری کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جب یہ نظام پوری انسانیت پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے، تاہم ابھی تک یہ مرحلہ مکمل طور پر حاصل نہیں ہوا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد حرص (Accumulation) اور حسد (Competition) پر ہے۔ ہر فرد زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نظام میں اشیاء کی قدر ان کی قیمت سے متعین ہوتی ہے، اور قیمتوں کا تعین قوت کے ٹکراؤ سے ہوتا ہے۔
معاشی تھیوری اور سرمایہ دارانہ عقلیت
سرمایہ دارانہ معیشت اس مفروضے پر قائم ہے کہ انسان فطری طور پر خودغرض اور لذت پرست ہے۔ معاشی تھیوری یہ باور کراتی ہے کہ انفرادی لذت اجتماعی فائدے کا باعث بنتی ہے، جسے "Rationality bounded by desire” کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں اشیاء اور خدمات کی پیداواری قیمت کا تعین منڈی میں قوت کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں بڑی کمپنیاں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔
زر اور سرمایہ کے بازار
سرمایہ دارانہ نظام میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کو زر پیدا کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ بینکاری نظام سود کے ذریعے پورے معیشتی ڈھانچے میں شامل ہوتا ہے، اور زر کی قدر حکومتوں اور مالیاتی اداروں کی طاقت سے متعین ہوتی ہے۔
سرمایہ داری کے معاشرتی اثرات
سرمایہ دارانہ معاشرت میں ہر فرد خودغرضی، حرص، اور حسد پر مبنی خواہشاتی عقلیت کے تحت زندگی گزارتا ہے۔ انفرادی ترقی کا معیار صرف سرمایہ دارانہ اصولوں کی پیروی سے وابستہ ہوتا ہے، اور اجتماعی اقدار کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ فلاحی ریاست بھی سرمایہ دارانہ اداروں کے تحفظ اور فروغ میں معاون بنتی ہے۔
سرمایہ داری کے تضادات
سرمایہ داری کی ترقی کا انحصار پیداوار اور احتکار پر ہے، لیکن جب پیداوار ضرورت سے زیادہ ہوجاتی ہے تو بحران پیدا ہوتا ہے۔ بے روزگاری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، اور بین الاقوامی جنگیں اس نظام کے بڑے تضادات ہیں۔ سرمایہ داری فطرتِ انسانی کے خلاف ہے، کیونکہ انسان محبت، ایثار، اور انفاق کا طالب ہے، نہ کہ خودغرضی اور حرص کا۔
سرمایہ داری کے خلاف اسلامی حکمتِ عملی
اسلامی اقدار کی بنیاد
اسلامی نظام محبت، ایثار، اور زہد پر مبنی ہے جبکہ سرمایہ داری حرص اور حسد کی تجسیم ہے۔ اسلامی معیشت کا بنیادی اصول حلال رزق اور عدل پر مبنی معیشتی ڈھانچہ ہے، جس میں حرص اور بخل کی کوئی گنجائش نہیں۔
تین سطحی حکمتِ عملی
- حلال ذرائع معاش کا فروغ: مساجد کے ذریعے اسلامی معاشی نظام کی بنیاد رکھ کر حلال روزگار فراہم کیا جائے اور سودی مالیاتی اداروں سے دور رہا جائے۔
- اسلامی مزدور یونینز کا کردار: مزدوروں کو سرمایہ دارانہ کمپنیوں کی مینجمنٹ میں شامل کرکے ان کا استحصال روکا جائے اور انہیں اسلامی اصولوں پر کاربند کیا جائے۔
- اسلامی ریاست کا قیام: اسلامی ریاست نجکاری اور آزاد معیشت کی پالیسیوں کو مسترد کرے اور قومی معیشت کو بین الاقوامی استحصال سے بچائے۔
نتیجہ
سرمایہ داری انسان کو اس کی فطری صفات سے ہٹاکر خودغرضی اور حرص کے دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ اسلامی انقلابی حکمتِ عملی کا مقصد اس نظام کو مکمل طور پر ختم کرکے محبت، ایثار، اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنا ہے۔