سرمایہ دارانہ علم اور اسلامی نقطۂ نظر کا تقابلی جائزہ

تہذیب اور تصورِ علم

کسی بھی تہذیب کا تصورِ علم اس کے بنیادی اہداف اور مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔ علم کی نوعیت کسی تہذیب کے بنیادی ایمانیات سے جڑی ہوتی ہے، اور بغیر مقصد کے علم کا تعین ممکن نہیں۔ یہ نکتہ سمجھنے میں ناکامی ہی وہ بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے کئی مفکرین مغربی علوم کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے یا ان کی "اسلام کاری” میں ناکام رہے۔

سرمایہ دارانہ علم کی وضاحت

اس مضمون میں سرمایہ دارانہ یا سائنسی علم کے پہلے اہم سوال پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے گی:

علم کیا ہے

علم کی نوعیت اور ایمانیات کا تعلق

علم درحقیقت جاننے والے (عالم) اور معلوم (جس چیز کو جانا جا رہا ہو) کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے۔ علم کے مواد اور درجہ بندی کا تعین جاننے والے شخص کے مقصد سے ہوتا ہے۔ اگر مقصد مختلف ہو تو علم کی نوعیت اور درجہ بندی بھی مختلف ہوگی۔

مثال کے طور پر، ایک انجینئر کے نزدیک تاریخ غیر اہم ہو سکتی ہے جبکہ ایک فلسفی کے لیے تاریخ سب سے اہم علم ہو گا۔ اسی طرح، مسلمانوں کے نزدیک "اصل علم” قرآن و حدیث ہیں کیونکہ اسلامی نقطہ نظر سے انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے، نہ کہ دنیاوی لذتوں کا حصول۔

سرمایہ دارانہ تصورِ علم اور ایمانیات

سرمایہ دارانہ یا سائنسی تصورِ علم کا بنیادی مقصد انسانی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل ہے، جس کا تعلق درج ذیل ایمانیات سے ہے:

  • آزادی: انسان کو اپنے فیصلے خود کرنے کا حق ہونا چاہیے، اور خیر و شر کا تعین انسانی خواہشات سے ہو۔
  • مساوات: تمام خیالات اور زندگی گزارنے کے طریقے برابر ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں۔
  • ترقی: زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ مادی کامیابیاں حاصل کرنا ہے۔

سائنس اور تصورِ علم

مغربی دنیا میں علم کا مطلب عام طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیا جاتا ہے۔ اس تصورِ علم کے مطابق علم وہی ہے جو انسان کو کائنات کو مسخر کرنے اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں مدد دے۔

گلیلیو کا قول:

"Bible shows us the way to heavens, but it does not show the way heavens go."

سرمایہ دارانہ علم کی خصوصیات

  • غیر حتمیت: سائنس میں حتمی سچ کا وجود نہیں ہوتا، بلکہ سچائی مسلسل ارتقاء پذیر ہوتی ہے۔
  • تردیدیت: صرف وہی بات علم کہلانے کے قابل ہے جسے تجربے کے ذریعے غلط ثابت کیا جا سکے۔
  • شک: کسی بھی چیز کو حتمی ماننا اور اس پر ایمان لانا غیر علمی سمجھا جاتا ہے۔
  • تحقیق برائے تحقیق: ہر موضوع قابل تحقیق ہے، چاہے وہ کتنا ہی غیر اہم کیوں نہ ہو۔
  • ارتقائی تعبیرات: ہر انسانی اور معاشرتی ادارے کی تشریح ارتقائی نظریے کی بنیاد پر کی جاتی ہے، وحی کی روشنی میں نہیں۔

سرمایہ دارانہ علم اور اخلاقیات

یہ تصورِ علم خود غرضی، حرص، حسد، طول امل، غضب، اور لذت پرستی جیسے اخلاقی برائیوں کو فروغ دیتا ہے۔ اس میں علم کا مطلب اللہ کی رضا حاصل کرنا نہیں بلکہ انسانی ارادے اور خواہشات کی تکمیل ہے۔

خرید و فروخت کا نظام

سرمایہ دارانہ معاشرے میں علم "خرید و فروخت” کے اصول پر مبنی ہوتا ہے۔ علم کا مقصد نفع کمانا اور مارکیٹ میں بیچنا ہے۔ یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے ایسے ہی علم کی تخلیق میں مصروف ہیں جس سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔

نتائج اور تنبیہات

  • سرمایہ دارانہ علم وحی کے انکار پر مبنی ہے اور اسے اسلام میں جہالتِ خالص کہا جائے گا۔
  • اس کا مقصد دنیاوی لذتوں اور مادی فوائد کا حصول ہے، جو اسلامی مقصدِ حیات سے متصادم ہے۔
  • اس علم کی پیروی کے نتیجے میں معاشرے میں اخلاقی برائیاں اور مادہ پرستی بڑھتی ہے۔

اہم نکات

سرمایہ دارانہ علم کو اپنانے کے بجائے اسلامی علم کی بنیاد پر معاشرتی و تعلیمی ڈھانچے کی تعمیر ضروری ہے۔

موجودہ دور میں جدیدیت کی مخالفت صرف علمائے کرام اور اسلامی مدارس ہی کر رہے ہیں، اور انہی کا تحفظ امت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1