سرمایہ دارانہ ترقی اور مابعدِنوآبادیاتی معاشروں کا بحران

سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی کو عمومی طور پر ایک فطری اور ناگزیر حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے، خاص طور پر مابعدِنوآبادیاتی معاشروں میں۔ تاہم، یہ صرف ایک معاشی نظام نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو دیگر معاشرتی، ثقافتی اور معاشی ڈھانچوں کو جذب کر کے اپنی شکل دے دیتا ہے۔

سرمایہ داری: تاریخی پسِ منظر

یہ تصور کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک فطری یا ازلی نظام ہے، درست نہیں۔ سرمایہ داری ایک تاریخی اور مخصوص پسِ منظر کی پیداوار ہے جس کا آغاز جدید مغربی تہذیب سے ہوا۔ جب مغربی آبادکاروں نے مختلف نوآبادیاتی خطوں میں قدم رکھا تو وہاں صرف وسائل کی نقل و حرکت ہی نہیں ہوئی بلکہ سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اور تصورِ ترقی بھی منتقل ہوا۔

سرمایہ دارانہ تصورِ شخصیت

سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی کی بنیاد اس تصورِ شخصیت پر ہے جو انسان کو خودمختار، آزاد اور اپنے خیر کا تعین کرنے والا فرد قرار دیتا ہے۔ یہ تصور Enlightenment (تحریکِ تنویر) سے جڑا ہوا ہے، جہاں Immanuel Kant نے آزادی کو انسانی زندگی کا بنیادی حق قرار دیا۔

  • Kant کا کہنا تھا کہ انسان کو مذہب، خاندانی روایات یا کسی بھی ماورائی اتھارٹی سے آزاد ہو کر خود اپنے فیصلے کرنے چاہئیں۔
  • Descartes نے اسی تصور کو بنیاد بناتے ہوئے Cogito (I think, therefore I am) کا نظریہ پیش کیا، جہاں فرد کو ہر چیز پر فوقیت دی گئی۔
  • اس سوچ نے مغرب میں Anthropocentricity (انسانی مرکزیت) کو فروغ دیا، جس میں انسان کو اعلیٰ ترین مقام پر فائز کر دیا گیا۔

سرمایہ دارانہ شخصیت اور آزادی کا تصور

سرمایہ دارانہ شخصیت کی بنیاد آزادی پر رکھی گئی ہے، جہاں فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی عقل کی بنیاد پر حقیقت اور خیر کا تعین کرے۔ Enlightenment کے مفکرین کے نزدیک یہی آزادی انسانیت کی معراج ہے۔ Kant کے نزدیک، اگر کسی فرد کو اس آزادی سے محروم کیا جائے تو یہ انسانیت کے خلاف جرم ہوگا۔

Adam Smith اور David Ricardo نے اسی آزادی کو معاشی میدان میں منتقل کیا، جہاں انسان کی لامحدود خواہشات کو فطری اور جائز قرار دیا گیا۔

  • Smith کے مطابق، انسان کی بنیادی خصوصیت حرص و لالچ (Acquisitiveness) ہے، اور یہی معاشی ترقی کا بنیادی محرک ہے۔

ترقی کا تصور: تاریخی ارتقاء

Gustavo Esteva کے مطابق، ترقی (Development) کی اصطلاح کا آغاز نباتاتی علوم میں ہوا جہاں اس کا مطلب جانداروں کی فطری نشوونما تھا۔ لیکن 19ویں صدی میں Adam Smith نے اسے معاشیات کا بنیادی جزو بنا دیا۔

  • اب ترقی کا مطلب صرف لامتناہی پیداوار، صنعت کا فروغ، صارفیت، اور سرمایہ کی بڑھوتری رہ گیا ہے۔
  • Esteva کا کہنا ہے کہ ترقی کو ایک ناگزیر اور مقدر تصور کر لیا گیا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

Deterritorialization اور Reterritorialization

Gilles Deleuze کے مطابق، سرمایہ داری جہاں بھی جاتی ہے، وہاں کے روایتی اقداری ڈھانچوں کو Deterritorialize کرتی ہے یعنی ان کی اہمیت کم کر کے اپنا نیا ڈھانچا قائم کرتی ہے۔

  • سرمایہ داری مقامی روایات اور اقدار کو آہستہ آہستہ ختم کرتی ہے اور ان کی جگہ معاشی اصولوں پر مبنی اقداری ڈھانچا قائم کرتی ہے۔
  • یہ عمل Reterritorialization کہلاتا ہے، جہاں مقامی شناخت کو ختم کر کے نئی سرمایہ دارانہ شناخت دی جاتی ہے۔

نوآبادیات اور مابعدِنوآبادیاتی معاشرے

مغربی آبادکار جہاں بھی گئے، وہاں صرف وسائل کی منتقلی نہیں ہوئی بلکہ سرمایہ دارانہ طرزِ زندگی اور تصورِ ترقی بھی منتقل ہوا۔ اس سے مابعدِنوآبادیاتی معاشروں کی روایتی شناخت زائل ہو گئی، اور وہ جدید سرمایہ دارانہ معاشروں کی محض نقل بن کر رہ گئے۔

  • روایتی زبان، اخلاقیات اور علم کی جگہ جدید سرمایہ دارانہ اصولوں نے لے لی۔
  • مابعدِنوآبادیاتی فرد ایک دہرے الجھاؤ میں مبتلا ہے: وہ سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہو چکا ہے لیکن درحقیقت وہ سرمایہ دارانہ ترقی کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔

نتیجہ

سرمایہ دارانہ تصورِ ترقی محض معاشی بڑھوتری کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی اور فکری تبدیلی ہے جو روایتی معاشروں کی بنیادوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ مابعدِنوآبادی معاشرے آج بھی اس الجھن میں مبتلا ہیں کہ وہ آزاد ہیں یا نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر اپنی اصل شناخت کھو چکے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1