دو نمازوں کو جمع کرنے کے متعلق شرعی رہنمائی
سوال:
دو نمازوں کو جمع کرنے کی کہاں تک رخصت ہے؟
ہم نے گزشتہ دنوں مشاہدہ کیا کہ نمازیں بہت کثرت سے جمع کر کے ادا کی جا رہی تھیں، اور اس مسئلے میں لوگوں نے بہت تساہل سے کام لیا ہے۔ آپ کی رائے میں کیا سردی جیسی کیفیت نمازوں کے جمع کرنے کا شرعی جواز بن سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر و ثواب سے نوازے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لوگوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ سستی یا غفلت کے باعث نمازوں کو جمع کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الصَّلوةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـبًا مَوقوتًا﴾ … سورة النساء: ۱۰۳
’’بے شک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘
اور ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلى غَسَقِ الَّيلِ وَقُرءانَ الفَجرِ إِنَّ قُرءانَ الفَجرِ كانَ مَشهودًا﴾ … سورة الإسراء: ۷۸
’’(اے نبی!) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نمازیں قائم کرو اور صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضوری (ملائکہ) ہے۔‘‘
جب فرض نمازوں کے اوقات مقرر ہیں، تو ان کو انہی اوقات میں ادا کرنا فرض و واجب ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں اجمالی ذکر ہے، اسی کی تفصیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی:
«وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَکَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ کَطُولِه مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ وَوَقْتُ صَلٰوةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ وَوَقْتُ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ اِلٰی نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ»
(صحيح مسلم، المساجد، اوقات الصلوات الخمس، ح: ۶۱۲ (۱۷۳))
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللَّهِ فَأُولـئِكَ هُمُ الظّـلِمونَ﴾ … سورة البقرة: ۲۲۹
’’اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں، تو وہی ظالم ہیں۔‘‘
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر، ارادے کے ساتھ نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھ لے تو وہ گناہ گار ہے اور اسے وہ نماز دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔ اگر کوئی لاعلمی یا غلطی سے ایسا کر لے تو وہ گناہ گار تو نہیں ہوگا، لیکن نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔
شرعی قاعدہ:
◈ اگر کوئی شخص بغیر کسی شرعی عذر کے نمازوں کو جمع کرے یا ان کو قبل از وقت یا بعد از وقت ادا کرے، تو وہ نماز صحیح نہیں ہوگی اور اعادہ لازم ہوگا۔
◈ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اور بغیر کسی عذر کے نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کر کے بعد والی نماز کے ساتھ جمع کرے، تو راجح قول کے مطابق وہ گناہ گار ہوگا اور اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔
لہٰذا، کسی شرعی سبب کے بغیر نمازوں کو مؤخر یا جمع کرنا جائز نہیں ہے۔
ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرے اور نماز جیسے عظیم فریضے کے معاملے میں سستی اور تساہل نہ برتے۔
صحیح مسلم کی حدیث سے وضاحت:
«جَمَعَ رَسُولُ اللّٰهِ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَآءِ فِي الْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ»
(صحيح مسلم، صلاة المسافرين، الجمع بين الصلاتين في الحضر، ح: ۷۰۵ (۵۴))
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کیا، نہ تو کوئی خوف تھا نہ بارش۔
اس حدیث میں کہیں بھی نماز کو جمع کرنے کے لیے تساہل یا سستی کی اجازت کا ذکر نہیں۔
بلکہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس عمل کی حکمت پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ امت کو حرج میں مبتلا نہ کیا جائے۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنے میں دشواری یا مشقت ہو تو جمع کرنے کی اجازت ہے، اور اگر ایسا کوئی حرج یا تکلیف نہ ہو تو ہر نماز کو اس کے مقرر وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔
سردی کے سبب جمع کی اجازت کا شرعی معیار:
محض سردی کی موجودگی میں نماز کو جمع کرنا جائز نہیں۔
البتہ اگر شدید سردی کے ساتھ ساتھ تیز ہوا بھی ہو، جس سے لوگوں کو مسجد آنے میں تکلیف ہو، یا ژالہ باری ہو جو لوگوں کے لیے ایذا کا باعث بنے، تو ایسی حالت میں نماز کو جمع کرنے کی شرعی اجازت ہے۔
اہم نصیحت:
میری تمام مسلمان بھائیوں اور خصوصاً ائمہ مساجد کو نصیحت ہے کہ وہ اس اہم مسئلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں اور اس کی رضا کی خاطر نمازوں کی ادائیگی میں اللہ سے مدد مانگیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب