سوال
سجدہ کی حالت میں کیا ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر رکھنا چاہیے یا انہیں قدرتی حالت میں چھوڑ دینا چاہیے؟ (ایک سائل)
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی اکرم ﷺ کی سنت سے متعلق ایک حدیث موجود ہے، جس میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں:
"أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا سَجَدَ ضَمَّ أَصَابِعَهُ”
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیاں ملا لیتے تھے”
(صحیح ابن خذیمہ: 642، صحیح ابن حبان الاحسان: 1917، دوسرا نسخہ 1020، المستدرک للحاکم 1/227 ح 826، وقال: "صحیح علی شرط مسلم” ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/112، المعجم الکبیر للطبرانی 22/19 ح26، وقال الہشیمی فی مجمع الزوائد 2/135 "اسنادہ حسن”، سنن الدارقطنی 1/339 ح 1268، البدر المنیر لابن الملقن 3/668 وقال: "ھذا الحدیث صحیح”، الاوسط لابن المنذر 3/169، اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی 2/726۔722، وقال: "ھو اسناد حسن”)
اس روایت پر محدثین کا تبصرہ:
اگرچہ بہت سے علماء نے اس روایت کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے، مگر راوی ہشیم بن بشیر الواسطی کے مدلس ہونے کی وجہ سے اور یہ روایت "عن” سے بیان کی گئی ہے، اس لیے سماع (براہ راست سننے) کی صراحت نہ ہونے کے باعث یہ روایت ضعیف قرار پاتی ہے۔
(دیکھیے بلوغ المرام: 237 بتحقیقی)
وضاحت اور وضاحتی تنبیہ:
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ آپ نے تسهيل الوصول إلى تخريج صلوٰۃ الرسول (طبع اول ص 267، طبع 2005ء ص 214) میں اس روایت کو صحیح لکھا ہے اور نماز نبوی (ص 180) میں اس سے استدلال کیا ہے،
(دیکھیے عبدالرحمان عزیز کی کتاب صحیح نماز نبوی، ص 181)
تو راقم الحروف (جواب دہندہ) بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ میری صرف وہی کتاب قابلِ اعتماد ہے:
◈ جو مکتبۃ الحدیث حضرو یا مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد/لاہور سے شائع ہوئی ہو
◈ یا کتاب کے آخر میں میرے دستخط ہوں
دلیل:
(مقدمہ القول المتین فی الجہر بالتامین، ص 12، دوسرا نسخہ ص 19، نوشتہ 22/دسمبر 2003ء، اور ماہنامہ الحدیث حضرو: 27، ص 60، نوشتہ 15/جون 2006ء)
اس واضح اعلان کے باوجود بعض افراد کا پرانی کتابوں یا غیر دستخط شدہ نسخوں سے حوالہ دینا بے معنی ہے۔
مزید یہ کہ دارالسلام کے شائع کردہ جدید ایڈیشن "نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں، تصحیح و تخریج سے مزین” میں یہ روایت موجود نہیں ہے۔
(دیکھیے: ص 224 تا 226)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت:
"وَإِذَا سَجَدَ وَجَّهَ أَصَابِعَهُ قِبَلَ القِبْلَةِ”
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرتے”
(نصب الرایہ 1/374، السنن الکبریٰ للبیہقی 2/113، اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی 2/639، وقال: وسندہ صحیح کما فی الدرایہ 79)
اس روایت کی سند پر تبصرہ:
◈ ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں اور روایت "عن” سے ہے (طبقات المدلسین: 91/3)
◈ زکریا بن ابی زائدہ بھی مدلس ہیں اور روایت "عن” سے ہے (الفتح المبین، ص 38)
لہٰذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
ایک ضعیف شاہد:
◈ کتاب الاوسط لابن المنذر (3/169): اس میں حارثہ بن محمد موجود ہے، جو ضعیف ہے
◈ مصنف ابن ابی شیبہ (1/264، ح 2712) میں بھی یہ روایت موجود ہے
اگر کوئی حسن لغیرہ کے اصول کو اپناتا ہے تو ان تینوں ضعیف روایات کو ملا کر حسن لغیرہ بنایا جا سکتا ہے۔
عملی پہلو:
اگر اس ضعیف روایت پر عمل کیا جائے تو جب ہاتھ کی تمام انگلیاں قبلے کی طرف کی جاتی ہیں، تو وہ قدرتی طور پر ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں۔ اگر انگلیوں کو الگ رکھا جائے تو قبلہ رخ ہونے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
تابعین اور سلف صالحین کے اقوال:
◈ امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ (ثقہ تابعی):
"لوگ یہ پسند کرتے تھے کہ سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملائی جائیں”
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/260، ح 2671، وسندہ صحیح)
◈ امام حفص بن عاصم (ثقہ تابعی) نے عبدالرحمان بن القاسم (ثقہ تبع تابعی) سے فرمایا:
"اے بھتیجے! سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر انھیں قبلہ رخ کردے، کیونکہ چہرے کے ساتھ ہاتھ بھی سجدہ کرتے ہیں”
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/260، ح 2673، وسندہ صحیح)
◈ امام سفیان ثوری سجدے میں انگلیاں ملایا کرتے تھے
(ابن ابی شیبہ 1/260، ح 2674، وسندہ صحیح)
◈ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلیوں کو سجدے میں قبلہ رخ کرنے کے قائل تھے
(مصنف ابن ابی شیبہ 1/264، ح 2713، 2718، 2719، وسندہ صحیح)
نتیجہ و خلاصہ:
سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کر قبلہ رخ رکھنا سنت سے قریب تر اور صحیح و راجح عمل ہے۔
والله أعلم (8/نومبر 2009ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب