سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملانا سنت ہے؟ تحقیقی جائزہ
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص101

حالت سجدہ میں ہاتھوں کی انگلیوں کو حرکت دینا اور انہیں ملانے کے بارے میں تفصیلی تحقیق

سوال:

سجدے کی حالت میں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملانا چاہیے یا انہیں نارمل چھوڑ دینا چاہیے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک حدیث میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"ان النبی صلی الله علیه وسلم کان اذا سجد ضم اصابعه۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیاں ملا لیتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمہ: ۶۴۲، صحیح ابن حبان، الاحسان: ۱۹۱۷، دوسرا نسخہ: ۱۹۲۰، المستدرک للحاکم ۲۲۷/۱ ح۸۲۶ وقال: ’’صحیح علی شرط مسلم‘‘ ووافقہ الذہبی فی تلخیصہ، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۱۲/۲، المعجم الکبیر للطبرانی ۱۹/۲۲ ح۲۶ وقال الہیثمی فی مجمع الزوائد ۱۳۵/۲: ’’اسنادہ حسن‘‘، سنن الدارقطنی ۳۳۹/۱ ح۱۲۶۸، البدر المنیر لابن الملقن ۶۶۸/۳ وقال: ’’ھذا الحدیث صحیح‘‘، الاوسط لابن المنذر ۱۶۹/۳، اصل صفۃ الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی ۷۲۶/۲۔ ۷۲۲ وقال: ’’ھو اسناد حسن‘‘)

اگرچہ متعدد اہلِ علم نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے، لیکن اس روایت کے راوی ہشیم بن بشیر الواسطی مدلس تھے اور یہ روایت "عن” کے صیغے سے ہے۔ ہمارے علم کے مطابق اس روایت کی کسی بھی سند میں سماع کی تصریح موجود نہیں، اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔
(دیکھئے: بلوغ المرام، ص۲۳۷، تحقیق شدہ)

بعض اعتراضات اور ان کا جواب:

اگر کوئی شخص (مثلاً شیخ عبدالرحمن عزیز یا محمد اشتیاق اصغر) یہ اعتراض کرے کہ راقم الحروف نے اپنی کتاب "تسهیل الوصول الی تخریج صلوۃ الرسول” (طبع اول ص۲۶۷، طبع ۲۰۰۵ء صحیح ۲۱۴) میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے یا اپنی دوسری کتاب "نماز نبوی” (ص۱۸۰) میں اس سے استدلال کیا ہے، تو اس کے جواب میں عرض ہے:

راقم الحروف نے بارہا اعلان کیا ہے کہ میری صرف وہی کتاب معتبر ہے:

◈ جسے مکتبۃ الحدیث حضرو یا مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد/لاہور سے شائع کیا گیا ہو۔
◈ یا جس کے آخر میں میرے دستخط موجود ہوں۔

مقدمہ القول المتین فی الجہر بالتامین (ص۱۲، دوسرا نسخہ ص۱۹، نوشتہ ۲۲/دسمبر ۲۰۰۳ء)
ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ ۲۷، ص۶۰ (نوشتہ ۱۵/جون ۲۰۰۶ء)

لہٰذا، ان واضح ہدایات کے باوجود کسی پرانی اور غیر مستند کتاب کے حوالے دینا بے معنی ہے۔

نیز، دارالسلام سے شائع شدہ جدید ایڈیشن (نماز نبوی، صحیح احادیث کی روشنی میں، تصحیح و تخریج شدہ) میں یہ روایت شامل نہیں۔
(دیکھئے: ص۲۲۴ تا ۲۲۶)

ایک اور روایت اور اس کی تحقیق:

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے:

"کان النبی صلی الله علیه وسلم…… واذا سجد وجه اصابعه قبل القبلة”
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف کرتے۔
(نصب الرایہ ۳۷۴/۱، السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۱۳/۲، اصل صفۃ الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی ۶۳۹/۲ وقال: ’’و سندہ صحیح کما فی الدرایہ [۷۹]‘‘)

لیکن یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:

ابو اسحاق السبیعی مدلس تھے اور روایت "عن” سے ہے۔
(دیکھئے: طبقات المدلسین ۳/۹۱)
زکریا بن ابی زائدہ بھی مدلس تھے اور یہ روایت بھی "عن” سے ہے۔
(دیکھئے: الفتح المبین، ص۳۸)

اس کا ایک ضعیف شاہد بھی موجود ہے:

کتاب الاوسط لابن المنذر (۱۶۹/۳، فیہ حارثہ بن محمد وھو ضعیف)
مصنف ابن ابی شیبہ (۲۶۴/۱، ح۲۷۱۲)

حسن لغیرہ اور اس پر عمل:

جو لوگ حسن لغیرہ کو حجت مانتے ہیں، ان کے اصول کے مطابق:

◈ یہ تینوں ضعیف روایات باہم مل کر "حسن لغیرہ” بن جاتی ہیں۔
◈ اگر اس ضعیف روایت پر عمل کیا جائے اور ہاتھ کی تمام انگلیاں قبلہ رخ کر دی جائیں تو وہ ایک دوسرے سے خود بخود مل جاتی ہیں۔
◈ اگر انگلیاں الگ رکھی جائیں تو ان کا رخ قبلے سے ہٹ سکتا ہے۔

تابعین اور ائمہ کی آراء:

امام محمد بن سیرین (ثقہ تابعی) نے فرمایا: لوگ پسند کرتے تھے کہ سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملائی جائیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۰/۱، ح۲۶۷۱، و سندہ صحیح)

امام حفص بن عاصم (ثقہ تابعی) نے عبدالرحمن بن لقاسم (ثقہ تبع تابعی) سے فرمایا:
"اے بھتیجے! سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر انھیں قبلہ رخ کردے کیونکہ چہرے کے ساتھ ہاتھ سجدہ کرتے ہیں۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۰/۱، ح۲۶۷۳، و سندہ صحیح)

امام سفیان ثوری سجدے میں انگلیاں ملاتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۰/۱، ح۲۶۷۴، و سندہ صحیح)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلیوں کو سجدے میں قبلہ رخ کرنے کے قائل تھے۔
(دیکھئے: مصنف ابن ابی شیبہ ۲۶۴/۱، ح۲۷۱۳، و سندہ صحیح؛ ۲۷۱۸، ۲۷۱۹، و سندہ صحیح)

خلاصۂ تحقیق:

تمام دلائل کی روشنی میں یہ بات صحیح اور راجح ہے کہ:

◈ سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ملا کر اور انہیں قبلہ رخ رکھنا چاہیے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1