سجدے میں پہلے ہاتھ یا گھٹنے؟ سنت طریقہ اور فقہی رائے
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

سجدہ کرتے وقت انسان کی کیفیت کیا ہونی چاہیے؟ یعنی زمین پر پہلے کون سا عضو رکھنا چاہیے – گھٹنے یا ہاتھ؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سجدے میں جانے کے دوران، سب سے پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھنا چاہیے، اس کے بعد دونوں ہاتھ زمین پر رکھنے چاہییں۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اس طریقے سے سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے جس میں انسان اونٹ کی طرح بیٹھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

«اِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ الْبَعِيْرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ»
(سنن ابي داؤد، الصلاة، باب کيف يضع رکبتيه قبل يديه، ح: ۸۴۰، وسنن النسائي، الصلاة، باب اول ما يصل الی الارض من الانسان في سجوده، ح: ۱۰۹۲، ومسند احمد: ۲/ ۳۸۱)

ترجمہ:
"جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو وہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں سے پہلے رکھے۔”

حدیث کی تشریح

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "اونٹ کی طرح بیٹھنے” سے منع فرمایا ہے، جو کہ ایک کیفیت (انداز یا طریقہ) کی ممانعت ہے، نہ کہ ان اعضا کی جن پر سجدہ کیا جاتا ہے۔

حدیث کے الفاظ "كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيْرُ” میں لفظ "كاف” تشبیہ کے لیے استعمال ہوا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ممانعت طریقہ (یعنی اندازِ سجدہ) کی ہے، نہ کہ ان اعضا کی جنہیں زمین پر رکھنا ہے۔ اگر یہ ممانعت عضو کی ہوتی تو حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہوتے:

"لَا يَبْرُکْ عَلٰی مَا يَبْرُکُ عَلَيْهِ”
یعنی "اس عضو پر سجدہ نہ کرے جس پر اونٹ بیٹھتا ہے”۔

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَا يَبْرُکْ کَمَا يَبْرُکُ”
یعنی "اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے”۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ممانعت طریقہ کی ہے، نہ کہ ان مخصوص اعضا کی۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ کی وضاحت

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے "زاد المعاد” میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ اس حدیث کے آخری الفاظ راوی کی طرف سے بدل گئے ہیں۔

حدیث کے الفاظ ہیں:

"وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُکْبَتَيْهِ”
یعنی "اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھے”

لیکن امام ابن القیم کے مطابق صحیح الفاظ یہ ہونے چاہییں:

"وَلْيَضَعْ رُکْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ”
یعنی "اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھے”

اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے ہاتھ رکھے اور پھر گھٹنے رکھے، تو اس کا انداز اونٹ جیسا ہو جائے گا، کیونکہ اونٹ بھی بیٹھتے وقت اپنے اگلے دونوں پاؤں (جو کہ ہاتھ کے برابر ہیں) پہلے رکھتا ہے۔

جس نے بھی اونٹ کو بیٹھتے دیکھا ہے، وہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ اونٹ پہلے اپنے اگلے پاؤں زمین پر رکھتا ہے۔
پس اگر ہم حدیث کے شروع اور آخر کے جملوں میں مطابقت چاہتے ہیں تو مناسب الفاظ ہوں گے:

"وَلْيَضَعْ رُکْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ”
تاکہ حدیث کا مطلب واضح اور متناقض نہ ہو۔

اس مسئلے پر مزید تحقیق

اس مسئلہ پر ایک بھائی نے "فتح المعبود فی وضع الرکبتين قبل اليدين فی السجود” کے نام سے ایک مفید رسالہ بھی تحریر کیا ہے، جس میں تفصیل سے دلائل دیے گئے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سنت طریقہ یہی ہے کہ سجدے میں جاتے وقت انسان پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھے، اس کے بعد ہاتھوں کو رکھے۔

فقہی اختلاف

نوٹ:
فاضل مفتی رحمہ اللہ نے امام ابن القیم رحمہ اللہ کا یہی موقف اختیار کیا ہے کہ حدیث کے الفاظ راوی سے بدل گئے ہیں۔

لیکن جمہور علماء (اکثریتی علماء) اس بات کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کے الفاظ محفوظ ہیں، نہ کہ تبدیل شدہ۔
اسی بنیاد پر ان کے نزدیک راجح قول (زیادہ مضبوط بات) یہ ہے کہ سجدہ کرتے وقت پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور بعد میں گھٹنے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے