سجدہ سہو کا حکم صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔

سجدہ سہو

عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذا نسي احدكم فليسجد سجدتين
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس اگر تم میں کوئی شخص (نماز میں) بھول جائے تو (سجدہ سہو) دو سجدے کرے۔“ [صحیح مسلم: 213/1 ح 572، ملخصاً]
فوائد:
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں اگر بھول چوک ہو جائے تو سہو کے دو سجدے کرنے چاہییں۔
(2)اگر تعداد رکعات مثلاً تین چار میں شک ہو جائے تو یقین کو اختیار کر کے سلام سے پہلے دو سجدے کرنے چاہییں۔ [صحیح مسلم: 211/1 ح 571]
(3)اگر تشہد اول بھول جائے تو آخر میں سجدہ سہو کریں۔ [ابو داود: ج 1 ص 155 ح 1034، 1035، وصحہ الترمذی: ج 1 ص 89، ابن ماجہ ص 74 ح 1206، 1207]
(4)فتاوی عالمگیری میں لکھا ہوا ہے: «والصواب ان یسلم تسلیمہ واحدہ وعلیہ الجمہور» صحیح مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف سلام پھیرے، یہی جمہور کا مذہب ہے۔ [125/1]
نہ جانے ان جمہور سے کون سے لوگ مراد ہیں، بعض ضرورت سے زیادہ کاروباری لوگوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی سودا بیچتے وقت کہتے ہیں کہ خدا کی قسم اس کا اتنا مول لگ گیا ہے۔ اب کسی کو کیا معلوم کہ وہ حضرت گھر سے مول لگوا کر آئے ہیں، مذہبی کتابوں میں گھریلو جمہوریت کی بات نہیں کرنی چاہیے، یہ بڑی ذمہ داری کی بات ہوتی ہے، انسان مغالطے میں پڑ جاتا ہے۔ [حی علی الصلاۃ ص 163]
(5)محقق اہل حدیث، امام، الثقہ المتقن الفقیہ، شیخ الاسلام، الخطیب حافظ خواجہ حمد قاسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”حنفیہ سلام کے بعد سجدہ سہو کے قائل ہیں اور عام نمازوں کے آخر میں یہ کامل التحیات پڑھتے ہیں اور دونوں طرف سلام پھیرتے ہیں، یہ پتا نہیں انہیں کس نے بتلا دیا ہے کہ سجدہ سہو کرنا ہو تو صرف تشہد پڑھ کر ایک طرف سلام پھیرنا چاہیے، ایسی کوئی حدیث نہیں ہے۔“ [حی علی الصلاۃ ص 163]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1