مشروعیت
سجدہ تلاوت کی مشروعیت پر اجماع ہے۔
[سبل السلام: 481/1 ، نيل الأوطار: 330/2]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ
[الإنشقاق: 21]
”اور جب ان (یعنی کفار ) کے پاس قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے ۔“
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ”ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورہ إذا السماء انشقت اورسورہ اقراء باسم ربك میں سجدہ کیا ۔“
[مسلم: 578 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب سجود التلاوة]
سجدہ تلاوت کا حکم
فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔
(جمہور) سجدہ تلاوت سنت ہے۔
(ابو حنیفہؒ) یہ سجدہ واجب ہے (ان کی دلیل موقوف حدیث ہے: السجدة على من سمعها وعلى من تلاها ”جس نے سجدے کی آیت سنی اور جس نے تلاوت کی دونوں پر سجدہ لازم ہے۔“ )
[نصب الراية: 178/2 ، المغنى: 364/2 ، الأم: 252/1 ، الهداية: 78/1 ، روضة الطالبين: 422/1 ، الدر المختار: 715/1 ، اللباب: 103/1 ، الشرح الصغير: 416/1 ، القوانين الفقهية: ص/ 90 ، مغني المحتاج: 214/1 ، الفقہ الإسلامي وأدلته: 1127/2 ، سبل السلام: 481/1 ، بداية المجتهد: 174/1 ، الكافي: ص/77]
عدم و جوب کے قائل حضرات کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
قرآت على النبى صلى الله عليه وسلم ”والنجم“ فلم يسجد فيها
”میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سورہ نجم کی تلاوت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی سجدہ نہیں کیا۔ “
[بخاري: 1072 ، كتاب الجمعة: باب من قرأ السجدة ولم يسجد ، مسلم: 577 ، أبو داود: 1404 ، ترمذی: 573 ، نسائي: 160/2 ، دارقطني: 410/1]
معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت فرض نہیں ہے کیونکہ اگر یہ سجدہ فرض یا واجب ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کبھی نہ چھوڑتے ۔
➋ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
انه قرأ على المنبر يوم الجمعة سورة النحل حتى جاء السجدة فنزل وسجد وسجد الناس حتى إذا كانت الجمعة القابلة قرأ بها حتى إذا جاء السجدة قال: أيها الناس إنا لم نؤم بالسجود فمن سجد فقد أصاب ومن لم يسجد فلا إثم عليه
”انہوں نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل کی تلاوت کی حتی کہ سجدہ کی آیت آئی تو نیچے اترے اور سجدہ کیا اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ پھر جب اگلا جمعہ آیا تو انہوں نے دوبارہ وہ سورت تلاوت کی حتی کہ جب سجدے کی آیت آئی تو کہا: ”اے لوگو! یقیناً ہمیں ان سجدوں کا حکم نہیں دیا گیا لٰہذا جو شخص یہ سجدے کرے گا اسے اجر و ثواب ملے گا اور جو یہ سجدے نہیں کرے گا اس پر کوئی گناہ نہیں ۔“
[بخاري: 1077 ، كتاب الجمعة: باب من رأى أن الله عزو جل لم يوجب السجود ، عبد الرزاق: 5889 ، بيهقي: 321/2 ، مؤطا: 206/1 ، شرح معاني الآثار: 354/2]
یہ واقعہ جمعہ کے دن صحابہ کی ایک جماعت کے سامنے پیش آیا اور کسی نے بھی اس پر اظہار تعجب نہیں کیا (اس لیے ثابت ہوا کہ اس مسئلہ پر صحابہ کا اجماع ہے۔
[المغنى: 365/2]
(راجح) عدم وجوب کا قول راجح ہے۔
(ابن حجرؒ) سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے۔
[فتح البارى: 260/3]
(نوویؒ) یہ سجدہ ہمارے نزدیک اور جمہور کے نزدیک سنت ہے واجب نہیں۔
[شرح مسلم: 388/3]
(ابن حزمؒ ) قرآن کے سجدے فرض نہیں البتہ اگر کوئی کر لے تو افضل ہے۔
[المحلى بالآثار: 328/3]
(شوکانیؒ ) یہ سنت ثابت ہے۔
[السيل الجرار: 287/1]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تحفة الأحوذي: 209/3]
(ابن قدامہؒ) جس نے سجدہ تلاوت کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ ، امام احمدؒ ، امام اوزاعیؒ اور امام لیثؒ کا بھی یہی موقف ہے ۔
[المغني لابن قدامة: 364/2 – 365]
(شیخ وھبہ زحیلیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 1128/2]
(ابن بازؒ) تلاوت کرنے والے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت سنت ہے فرض نہیں۔
[الفتاوى الإسلامية: 353/1]
معلوم ہوا کہ سجدہ تلاوت سنت ہے واجب نہیں لیکن یاد رہے کہ اس کا کرنا ہی افضل ہے کیونکہ ایک تو یہ سنت ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی وجہ سے شیطان بھی روتا پیٹتا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا قرأ ابن آدم السجدة فسجد اعتزل الشيطان يبكى يقول يا ويلى أمر ابن آدم بالسجود فسجد فله الجنة وأمرت بالسجود فأبيت فلى النار
”جب ابن آدم کسی سجدہ کی آیت کو تلاوت کرتا ہے اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا اس سے علیحدہ ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ”ہائے میری ہلاکت“ کہ ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا تو اس نے سجدہ کر لیا لٰہذا اس کے لیے جنت ہے اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا لٰہذا میرے لیے آگ ہے۔“
[مسلم: 115 ، كتاب الإيمان: باب إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة ، ابن ماجة: 1052]
واجب کہنے والوں کی دلیل اور اس کا جواب:
ان کی دلیل گذشتہ حدیث ہے کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں :
امر ابن آدم بالسجود
”یعنی ابن آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا۔“
تو اس کا کئی طرح سے جواب دیا گیا ہے جیسا کہ امام نوویؒ نے اسے نقل کیا ہے۔
➊ اس حدیث میں امر کا لفظ ابلیس کا کلام ہے جس میں کوئی حجت و دلیل نہیں۔
➋ اس سے مراد امر استحباب ہے نہ کہ امر وجوب ۔
➌ اس سے مراد سجدے میں مشارکت ہے نہ کہ وجوب میں ۔
[شرح مسلم: 146/2]
سجود تلاوت کی تعداد
➊ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان رسول الله أقرأه خمس عشرة سجدة فى القرآن منها ثلاث فى المفصل وفي الحج سجدتان
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قرآن میں پندرہ سجدے پڑھائے ان میں سے تین مفصل میں ہیں اور دو سورہ حج میں ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 301 ، كتاب الصلاة: باب المشكاة: 1029 ، أبو داود: 1401 ، ابن ماجة: 1057 ، دار قطني: 408/1 ، حاكم: 223/1 ، بيهقي: 314/2]
➋ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ سجدے سکھائے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 302 ، أيضا ، ضعيف ترمذي: 87 ، ضعيف ابن ماجة: 216 ، أبو داود: 1401 ، امام ابو داودؒ فرماتے هيں كه اس كي سند كمزور هے۔]
➌ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول :
فضلت سورة الحج بأن فيها سجدتين؟ قال نعم ومن لم يسجدهما فلا يقراهما
”کیا سورہ حج کو اس لیے فضیلت دی گئی ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور جو یہ دونوں سجدے نہ کرے وہ انہیں مت پڑھے۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 303 ضعيف ترمذي: 89 كتاب الجمعة: باب ما جاء فى السجدة فى الحج ، المشكاة: 1030 ، ترمذى: 578 ، أبو داود: 1402 ، دار قطني: 408/1 ، اس كي سند ميں ابن لهيعه اور شرح بن ھاعان دونوں ضعيف هيں – نيل الأوطار: 329/2 ، تحفة الأحوذى: 212/3]
چونکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں اس لیے سجود تلاوت کی تعداد میں اختلاف ہے۔
(احمدؒ) سجود تلاوت پندرہ ہیں۔ (سورہ حج میں دو سجدے ہیں۔ ) امام لیثؒ ، امام اسحاقؒ ، امام ابن وهبؒ ، امام ابن منذرؒ اور اہل علم کا ایک گروہ اسی کا قائل ہے۔
(ابو حنیفہؒ) سجود تلاوت کی تعداد چودہ ہے۔ (یعنی یہ سورہ حج کے دوسرے سجدے کو تسلیم نہیں کرتے ) ۔
(شافعیؒ) قدیم قول کے مطابق گیارہ سجدوں (ص اور مفصل کے سجدوں کے علاوہ ) اور جدید قول کے مطابق چودہ سجدوں (سورہ ص کے علاوہ) کے قائل ہیں ۔
[المجموع: 557/3 ، الحاوى: 202/2 ، بدائع الصنائع: 193/1 ، المبسوط: 6/2 ، المغني: 254/2 ، تحفة الفقهاء: 369/1 ، بداية المجتهد: 176/1 ، نيل الأوطار: 328/2 ، سبل السلام: 481/1]
(ابن حزمؒ ) چودہ سجدوں کے قائل ہیں۔ (سورہ حج کے دوسرے سجدے کو تسلیم کرتے ہیں ) ۔
[المحلى بالآثار: 322/3]
(راجح) کل پندرہ سجدے ہیں۔ سورہ حج کے دوسرے سجدے والی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اکثر و بیشتر امت کا اسی پر عمل ہے اور بعض صحابہ سے بھی اس پر عمل ثابت ہے جس سے اس کی مشروعیت واضح ہو جاتی ہے اور بقیہ تمام سجدے صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔
(البانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[تمام المنة: ص/ 270]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) راجح قول یہی ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں ۔
[تحفة الأحوذي: 213/3]
پندرہ سجدوں کے مقامات
➊ خاتمة الأعراف [الأعراف: 206]
➋ بالغدو والآصال [الرعد: 15]
➌ ويفعلون ما يؤمرون [النحل: 50]
➍ ويزيدهم خشوعا [الإسراء: 109]
➎ خرو مسجدا وبكيا [مريم: 58]
➏ إن الله يفعل ما يشاء [الحج: 18]
➐ وزادهم نفورا [الفرقان: 60]
➑ رب العرش العظيم [النمل: 26]
➒ وهم لا يستكبرون [السجدة: 15]
➓ وخر راكعا وأناب [ص: 24]
⓫ وهم لا يسئمون [حم السجدة: 38]
⓬ خاتمة النجم [النجم: 19]
⓭ القرآن لا يسجدون [ الإنشقاق: 21]
⓮ واسجد واقترب [العلق: 19]
⓯ سورہ حج کا دوسرا (مختلف فیہ ) سجدہ [77]
[نيل الأوطار: 329/2 ، المحلى بالآثار: 323/3]
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کا سجدہ کیا ۔
[بخارى: 1071 ، كتاب الجمعة: باب سجود المسلمين مع المشركين ، ترمذى: 572 ، بيهقي: 314/2]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
سجدنا مع النبى صلى الله عليه وسلم فى إذا السماء انشقت و اقراء باسم ربك
ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ إذا السماء انشقت اور اقرأ باسم ربك میں سجدہ کیا ۔“
[مسلم: 578 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب سجود التلاوة ، أبو داود: 1407 ، ترمذي: 570 ، ابن ماجة: 1058]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
ص ليست من عزائم السجود ولقد رأيت النبى صلى الله عليه وسلم يسجد فيها
”سورہ ص کا سجدہ لازم نہیں ہے لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سجدہ کیا کرتے تھے ۔“
[بخاري: 1069 ، كتاب الجمعة: باب سجدة ص ، أبو داود: 1409 ، ترمذي: 574 ، نسائي: 159/2 ، بيهقي: 318/2]
فرض نماز میں بھی سجدہ تلاوت مشروع ہے
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم سجد فى الصلاة لما قرأ إذا السماء انشقت
نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں ) اس وقت سجدہ تلاوت کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے إذا السماء انشقت کی تلاوت فرمائی ۔“
[بخاري: 766 ، 768 ، 1074 ، كتاب الجمعة: باب سجدة إذا السماء انشقت ، مسلم: 578 ، أبو داود: 1408 ، نسائي: 162/2 ، ابن خزيمة: 955]
(شوکانیؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
[السيل الجرار: 288/1]
نماز کے علاوہ بھی سجدہ تلاوت مشروع ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله يقرأ علينا السورة فيقرأ السجدة فيسجد ونسجد معه حتى ما يجد أحدنا مكانا لموضع جبهته
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سورت تلاوت کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی آیت تلاوت فرماتے اور سجدہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے حتی کہ ہم میں سے کسی ایک کو (بعض اوقات) اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہیں ملتی تھی ۔“
اور صحیح مسلم کی روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ طوفي غير صلاة ”نماز کے علاوہ (ہماری یہ حالت ہوتی تھی ) ۔“
[أحمد: 17/2 ، بخارى: 1075 – 1076 ، كتاب الجمعة: باب من سجد بسجود القاري ، مسلم: 575 ، أبو داود: 1412 ، ابن خزيمة: 557 – 558]
سجدہ تلاوت کے لیے وضو اور قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں
➊ گذشتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے:
حتى ما يحد أحدنا مكانا لموضع جبهته
”حتى كہ ہم میں سے کوئی (بعض اوقات ) اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ پاتا تھا۔“
[بخاري: 1075 ، كتاب الجمعة: باب من سجد بسجود القارى]
یقینا اس قدر ہجوم میں اکٹھے سجدہ کیا جائے تو ہر شخص نہ باوضو ہوتا ہے اور نہ قبلہ رخ ۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
ان النبى سجد بالنجم وسجد معه المسلمون والمشركون والجن والإنس
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کا سجدہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں ، مشرکوں ، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا ۔“
[بخاري: 1071 ، كتاب الجمعة: باب سجود المسلمين مع المشركين ، ترمذى: 572 ، بيهقي: 314/2]
اس حدیث میں مشرکین کے سجدے کا ذکر ہے حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ مشرکین نجس ہیں اور ان کا وضوا گر قائم ہو تب بھی درست نہیں چہ جائیکہ وہ پہلے ہی بے وضوء ہوں ۔
➌ امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ كان ابن عمر يسجد على غير وضوء ”حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بغیر وضوء کے سجدا تلاوت) کیا کرتے تھے ۔“
[بخارى تعليقا: 1071 ، كتاب سجود القرآن: باب سجود المسلمين مع المشركين والمشرك نجس ليس له وضوء]
(ابن تیمیهؒ ) سجدہ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے اس لیے اس کے لیے شروط نماز مقرر نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ بغیر طہارت کے بھی جائز ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل بھی اسکی دلیل ہے۔
[مجموع الفتاوي: 165/23]
(شوکانیؒ ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[نيل الأوطار: 340/2]
(ابن حزمؒ ) تلاوت قرآن کے دوران سجدے نہ تو ایک رکعت ہیں اور نہ ہی انہیں دو رکعت کہا جاتا ہے اس لیے انہیں نماز شمار نہیں کیا جاتا اور جب یہ نماز نہیں ہیں تو بغیر وضوء جنبی کے لیے ، حائضہ کے لیے اور غیر قبلہ کی طرف دیگر تمام اذکار کی طرح مباح و جائز ہیں ۔
[المحلى: 105/5 ، المحلى بالآثار: 330 – 331]
(ابن قدامہؒ) ان سجدوں کے لیے وہی شرط لگائی جائے گی جو نفل نماز کے لیے لگائی جاتی ہے یعنی حدث اور نجاست سے طہارت ، ستر ڈھانپنا ، قبلہ رخ ہونا اور نیت۔ نیز ہمیں اس میں کسی اختلاف کا علم بھی نہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 219/3]
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ ) اسی کے قائل ہیں ۔
[أيضا]
سجدہ تلاوت کے لیے تکبیر کہنا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم يقرأ علينا القرآن فإذا مر بالسجدة كبر وسجد وسجدنا معه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سجدے سے گزرتے تو تکبیر کہتے اور سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کرتے ۔“
[منكر: ضعيف أبو داود: 306 ، كتاب الصلاة: باب فى الرجل يسمع السجدة المشكاة: 1032 ، أبو داود: 1413 ، عبد الرزاق: 5911 ، شيخ البانيؒ رقمطراز هيں كه يه حديث تكبير كے ذكر كے ساتھ منكر هے اور محفوظ اس كے علاوه هے۔]
اس حدیث میں تکبیر کے لفظ درست نہیں ہیں اس لیے سجدہ تلاوت کے لیے تکبیر کہنا ثابت نہیں البتہ نماز میں چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جھکتے اور اٹھتے وقت لازما تکبیر کہتے تھے اس لیے سجدہ تلاوت کے لیے جھکتے وقت بھی تکبیر کہنی چاہیے۔
سجدہ تلاوت کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قرآن کے سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے :
سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِى خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمُعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ
[صحيح: صحيح أبو داود: 1255 ، كتاب الصلاة: باب ما يقول إذا سجد ، أبو داود: 1414 ، ترمذي: 580 ، نسائي: 222/2 ، أحمد: 30/6 ، دارقطني: 405/1 ، حاكم: 22031 ، بيهقي: 325/2 ، يلفظ فتبارك الله احسن الخالقين مستدرك حاكم ميں زائد هيں۔ نيل الأوطار: 340/2]
سجدہ شکر کے مسائل
کسی نعمت کے حصول ، مصیبت و تکلیف سے چھٹکارے اور خوشی و مسرت کے موقع پر یہ سجدہ مشروع ہے۔
➊ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا جاءه أمر يسره خر ساجد الله
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشخبری ملتی تو اللہ کے حضور سجدے میں گر پڑتے ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 226/2 ، 474 ، أبو داود: 2774 ، كتاب الجهاد: باب فى سجود الشكر ، ترمذي: 1578 ، ابن ماجة: 1394 ، دارقطني: 410/1 ، بيهقى: 370/2]
➋ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
سجد النبى صلى الله عليه وسلم فأطال السجود ثم رفع رأسه وقال إن جبرئيل أتاني فبشرني فسجدت لله شكرا
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور لمبا سجدہ کیا پھر اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ بے شک حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بشارت دی تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ ریز ہو گیا ۔“
[صحيح: أحمد: 191/1 ، حاكم: 550/1 ، بيهقي: 371/2 ، امام حاكمؒ نے اسے شيخين كي شرط پر صحيح كها هے اور امام بیھقیؒ نے بهي ان كي موافقت كي هے اور مزيد فرمايا كه ”سجده شكر ميں اس سے زياده صيح اور كوئي حديث نهيں ۔“ امام ہیشمیؒ نے اس كے رجال كو ثقه قرار ديا هے۔ المجمع: 287/2 ، شيخ محمد صجی حلاق نے اسے صحيح كها هے ۔ التعليق على سبل السلام: 582/1 ، شيخ حازم على قاضي نے اسے حسن كها هے۔ التعليق على سبل السلام: 48831]
➌ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ فرمایا: راوی نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ :
فكتب على بإسلامهم فلما قرأ رسول الله الكتاب خر ساجدا شكر الله على ذلك
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل یمن کے قبول اسلام کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مکتوب پڑھا تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر گئے ۔“
[بيهقي: 369/2 ، امام بهيقيؒ بيان كرتے هيں كه امام بخاريؒ نے اس حديث كا ابتدائي حصه ”ابراهيم بن يوسف“ سے روايت كيا هے ليكن اسے مكمل نقل نهيں كيا اور سجده شكر كي مكمل حديث امام بخاريؒ كي شرط پر صحيح هے۔]
(احمدؒ ، شافعیؒ) سجدہ شکر مشروع ہے۔
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) یہ سجدہ نہ مستحب ہے نہ مکروہ ہے ۔
[الأم: 251/1 ، رد المختار: 597/2 ، سبل السلام: 487/1 ، كشاف القناع: 449/1]
(شوکانیؒ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کے باوجود ان دونوں اماموں سے سجدہ شکر کا انکار نہایت عجیب بات ہے۔
[نيل الأوطار: 343/2]