سجدۂ تلاوت سنت ہے یا واجب؟ جمہور محدثین کا موقف
سجدۂ تلاوت کے بارے میں فقہاء کے مابین بنیادی اختلاف یہ ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا سنتِ مؤکدہ۔ قرونِ اولیٰ کے صحابہ، تابعین اور ائمہ حدیث و فقہ کی بھاری اکثریت (جمہور) کے نزدیک سجدۂ تلاوت سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، جبکہ فقہ حنفی میں اسے واجب کہا گیا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ جمہور محدثین و فقہاء کے نزدیک سجدۂ تلاوت شرعاً مشروع اور پسندیدہ عمل ہے، لیکن اسے نہ کرنے سے گناہ لازم نہیں آتا، اور اس پر قرآن، حدیث، صحابہ کے آثار اور ائمہ کے اقوال سے مسلسل دلائل موجود ہیں، جبکہ حنفیہ کا قول ایک منفرد اور مرجوح رائے ہے۔
پس منظر اور اصل بحث
سجدہ تلاوت سے مراد وہ سجدہ ہے جو قرآنِ مجید کی مخصوص آیاتِ سجود کی تلاوت یا سماع پر کیا جاتا ہے۔ جمہور محدثین اور صحابہ و تابعین کے اجماع کے مطابق یہ سجدہ ایک مسنون اور مستحب عبادت ہے، جس کے ترک پر مواخذہ نہیں۔ حنفیہ نے اس کو ’’واجب‘‘ قرار دے کر درجۂ فرض سے کچھ کم مگر عام سنت سے اوپر رکھا ہے۔ ذیل میں پہلے صحابہ و تابعین کے آثار، پھر ائمہ اربعہ اور محدثین کے نصوص پیش کیے جاتے ہیں، اور آخر میں خلاصہ و نتیجہ ذکر ہوگا۔
دلائلِ جمہور: سجدۂ تلاوت سنت ہے
① سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا عمل اور تصریح (صحیح بخاری)
1077- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الهُدَيْرِ التَّيْمِيِّ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ رَبِيعَةُ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ، عَمَّا حَضَرَ رَبِيعَةُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَرَأَ يَوْمَ الجُمُعَةِ عَلَى المِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ نَزَلَ، فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الجُمُعَةُ القَابِلَةُ قَرَأَ بِهَا، حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ، قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ، فَمَنْ سَجَدَ، فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ، فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ»
ترجمہ:
ربیعہ بن عبداللہ تیمی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے۔ آپ نے جمعہ کے دن منبر پر سورۃ النحل تلاوت کی، جب سجدہ والی آیت پر پہنچے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا، اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ اگلے جمعہ پھر یہی سورت پڑھی، جب سجدہ کی آیت آئی تو فرمایا: ‘‘اے لوگو! ہم سجدہ والی آیت کے پاس سے گزر رہے ہیں، پس جس نے سجدہ کیا اس نے اچھا کیا، اور جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں’’، اور اس دن عمر رضی اللہ عنہ نے خود سجدہ نہیں کیا۔
الكتاب: صحيح البخاري
فقہی خلاصہ:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا لوگوں کے بڑے مجمع میں یہ اعلان کہ ‘‘جو نہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں’’ صریح دلیل ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں، ورنہ وہ گناہ سے نفی نہ کرتے، نہ خود ترک کرتے۔
② سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی تصریح: ‘‘لم يفرض السجود علينا إلا أن نشاء’’
1077 – حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنِي—– وَزَادَ نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، «إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضِ السُّجُودَ إِلَّا أَنْ نَشَاءَ»
ترجمہ:
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ نے سجدہ (تلاوت) ہم پر فرض نہیں کیا، مگر یہ کہ ہم خود کرنا چاہیں۔’’
5889 – عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ:— قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَزَادَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: «لَمْ يُفْرَضِ السُّجُودُ عَلَيْنَا إِلَّا أَنْ نَشَاءُ»
ترجمہ:
عبد الرزاق کہتے ہیں: ابن جریج نے کہا، نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مجھے مزید یہ بتایا کہ انہوں نے فرمایا: ‘‘ہم پر سجدہ فرض نہیں کیا گیا، مگر یہ کہ ہم چاہیں (تو کریں)۔’’
الكتاب: المصنف
المؤلف: أبو بكر عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري اليماني الصنعاني (المتوفى: 211هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن عمر رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ صحابی کا یہ واضح قول کہ ‘‘یہ ہم پر فرض نہیں’’، صریح ہے کہ سجدۃ التلاوۃ وجوب کے درجے تک نہیں پہنچتا بلکہ اختیار پر موقوف ہے، یعنی سنت و مستحب عمل ہے۔
③ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (تابعی فقیہ) کا قول
5905 – عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: السُّجُودُ وَاجِبٌ؟ قَالَ: لَا،
ترجمہ:
ابن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے عطاء (بن ابی رباح) سے پوچھا: کیا یہ سجدہ واجب ہے؟ انہوں نے فرمایا: ‘‘نہیں’’۔
الكتاب: المصنف
المؤلف: أبو بكر عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري اليماني الصنعاني (المتوفى: 211هـ)
فقہی خلاصہ:
تابعی امام عطاء بن ابی رباح (متوفی 211ھ) مکہ مکرمہ کے بڑے فقہاء میں سے تھے۔ ان کا صاف جواب ‘‘لا’’ اس بات کی تائید ہے کہ سجدہ تلاوت کو واجب سمجھنا سلف کے معروف منہج کے خلاف ہے۔
④ امام شافعی رحمہ اللہ کا تفصیلی اصولی استدلال
قال الشَّافِعِي رحمه الله: ولا أحبُّ أن يدع شيئاً من سجود القرآن، وإن تركه كرهته له، وليس عليه قضاؤه؛ لأنَّه ليس بفرض.
فإن قال قائل: ما دلَّ على أنه ليس بفرض؟
قيل: السجود صلاة، قال اللَّه تعالى:
(إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا) الآية.
فكان الموقوت يحتمل: مؤقتاً بالعدد، ومؤقتاً بالوقت.
فأبان رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أن اللَّه – عز وجل – فرض خمس صلوات فقال رجل يا رسول اللَّه هل على غيرها؟
قال: ” لا، إلا أن تطَوَّع” الحديث.
فلما كان سجود القرآن خارجاً من الصلوات المكتوبات، كانت سُنَّة اختيار، فأحبُّ إلينا ألَّا يدعه، ومن تركه ترك فضلاً لا فرضاً.
ترجمہ (خلاصہ):
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘‘میں یہ پسند نہیں کرتا کہ قرآن کے کسی سجدے کو چھوڑا جائے، اگر کوئی چھوڑ دے تو اسے ناپسند کرتا ہوں، لیکن اس پر قضاء لازم نہیں؛ کیونکہ یہ فرض نہیں۔ اگر کوئی پوچھے کہ دلیل کیا ہے کہ یہ فرض نہیں؟ تو کہا جائے گا: سجدہ دراصل نماز ہی کی ایک صورت ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘‘بیشک نماز مومنوں پر وقت باندھ کر فرض کی گئی ہے’’، اور رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ اللہ نے صرف پانچ نمازیں فرض کی ہیں، مزید پر فرمایا: ‘‘نہیں، مگر یہ کہ تم نفل پڑھو’’۔ چونکہ سجدہ تلاوت فرض نمازوں کے باہر بھی ہوتا ہے، اس لیے یہ اختیار کی سنت ہے، ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کہ اسے نہ چھوڑا جائے، اور جو چھوڑ دے وہ فرض نہیں بلکہ فضیلت کو چھوڑتا ہے۔’’
الكتاب: تفسير الإمام الشافعي
المؤلف: الشافعي أبو عبد الله محمد بن إدريس (المتوفى: 204هـ)
فقہی خلاصہ:
امام شافعی رحمہ اللہ نے نصِ حدیث سے ثابت کیا کہ فرض سجدے صرف پنج وقتہ نمازوں کے سجدے ہیں۔ جب سجدۃ التلاوۃ ان سے باہر ہے تو وہ فرض نہیں، بلکہ سنتِ مؤکدہ اور ‘‘فضل’’ ہے، جس کے ترک پر گناہ نہیں بلکہ ثواب سے محرومی ہے۔
⑤ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول فتاویٰ (مسائل ابن ہانی)
① عصر کے بعد سجدہ تلاوت کا سوال:
490:- سألته عن الرجل يقرأ السجدة بعد العصر هل يسجد؟
قال: قال عمر: ما علينا أن نسجدها، إلا أن نشاء
ترجمہ:
اسحاق بن ابراہیم بن ہانی کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا کہ ایک آدمی عصر کے بعد سجدہ والی آیت پڑھ لے تو کیا اسے سجدہ کرنا چاہیے؟
انہوں نے جواب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا: ‘‘ہم پر لازم نہیں کہ ہم یہ سجدہ کریں، مگر یہ کہ ہم خود چاہیں۔’’
② بے وضو شخص کا سجدہ تلاوت:
٤۹٣ – رأيت أبا عبد الله يرفع يديه في الصلاة إذا قرأ السجدة.
٤۹٤ – سألت أبا عبد الله عن الرجل يسمع السجدة، وهو غير طاهر، أيسجد؟
قال: لا يسجد، وإن سجد وهو طاهر، وإلا فليس عليه أن يسجد.
ترجمہ:
راوی کہتے ہیں: ‘‘میں نے ابو عبد اللہ (امام احمد) کو دیکھا کہ وہ نماز میں سجدہ والی آیت پڑھتے تو ہاتھ اٹھاتے (سجدہ تلاوت کے ارادے سے)۔’’
اور میں نے امام احمد سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو سجدہ والی آیت سنتا ہے اور وہ باوضو نہیں، تو کیا سجدہ کرے؟
فرمایا: ‘‘وہ سجدہ نہ کرے۔ اور اگر پاکی کی حالت میں ہو تو سجدہ کرلے، ورنہ اس پر سجدہ کرنا لازم نہیں۔’’
الكتاب: مسائل ابن هانئ للإمام أحمد
فقہی خلاصہ:
امام احمد رحمہ اللہ کا عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال اور بے وضو سامع کے حق میں ‘‘فليس عليه أن يسجد’’ کہنا، دونوں اس حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں، ورنہ بے وضو کے لیے بھی وجوب کا حکم دیتے یا قضا کا ذکر کرتے۔
⑥ امام بخاری رحمہ اللہ کا باب: “سجود القرآن وسنتها”
مَا جَاءَ فِي سُجُودِ القُرْآنِ وَسُنَّتِهَا
ترجمہ (باب کا عنوان):
‘‘قرآن کے سجدوں اور ان کی سنت ہونے کا بیان’’
پھر حدیث:
1067 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الأَسْوَدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ بِمَكَّةَ فَسَجَدَ فِيهَا وَسَجَدَ مَنْ مَعَهُ غَيْرَ شَيْخٍ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًى – أَوْ تُرَابٍ – فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا "، فَرَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا
ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ میں سورۃ النجم کی تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ موجود سب لوگوں نے سجدہ کیا، سوائے ایک بوڑھے کے، جس نے کنکریوں یا مٹی کا چُلو بھر کر اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہا: ‘‘یہ میرے لیے کافی ہے’’، پھر میں نے اسے بعد میں کافر کی حالت میں قتل ہوتے دیکھا۔
الكتاب: صحيح البخاري
فقہی خلاصہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے عنوان میں ہی ‘‘سنتها’’ کہہ کر سجدہ تلاوت کو سنت قرار دیا، اگر یہ واجب یا فرض ہوتا تو عنوان میں اسی کا ذکر کرتے۔ حدیث میں نبی ﷺ کا فعل مشروعیت پر دلالت کرتا ہے، وجوب پر نہیں۔
⑦ امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ کا موقف
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: —– «زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا» .
قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: لَا حُجَّةَ لَهُمْ فِي هَذَا، فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ: إنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: لَا سُجُودَ فِيهَا، وَإِنَّمَا فِي هَذَا الْخَبَرِ حُجَّةٌ عَلَى مَنْ قَالَ: إنَّ السُّجُودَ فَرْضٌ فَقَطْ.
وَهَكَذَا نَقُولُ: إنَّ السُّجُودَ لَيْسَ فَرْضًا، لَكِنْ إنْ سَجَدَ فَهُوَ أَفْضَلُ، وَإِنْ تَرَكَ فَلَا حَرَجَ، مَا لَمْ يَرْغَبْ عَنْ السُّنَّةِ؟
ترجمہ (خلاصہ):
ابو محمد ابن حزم لکھتے ہیں: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ‘‘میں نے نبی ﷺ پر سورۃ النجم کی تلاوت کی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا’’۔ ابن حزم کہتے ہیں: اس میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں جو کہتے ہیں کہ اس میں سجدہ سرے سے نہیں، کیونکہ زید نے یہ نہیں کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہاں سجدہ نہیں، بلکہ اس خبر میں ان کے خلاف دلیل ہے جو سجدہ کو فقط فرض کہتے ہیں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ سجدہ فرض نہیں، البتہ اگر کرے تو افضل ہے، اور اگر چھوڑ دے تو کوئی حرج نہیں، جب تک سنت سے اعراض کی نیت نہ ہو۔
الكتاب: المحلى بالآثار
المؤلف: أبو محمد علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي القرطبي الظاهري (المتوفى: 456هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن حزم ظاہر کہ متشدد اصولی ہیں، وہ بھی واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ سجدہ تلاوت ‘‘فرض نہیں’’ بلکہ افضل و مستحب عمل ہے، ترک پر ‘‘لا حرج’’ ہے، جو صریحاً عدمِ وجوب کو ثابت کرتا ہے۔
⑧ امام ابن عبدالبر ابو عمر رحمہ اللہ کا استدلال اور اجماعِ صحابہ
وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى صِحَّةِ قَوْلِ عُمَرَ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكْتُبْهَا عَلَيْنَا فَإِنَّمَا حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ هَذَا حُجَّةٌ عَلَى مَنْ أَوْجَبَ سُجُودَ التلاوة لا غير
ترجمہ:
‘‘یہ (حدیث) عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ ہمارے اوپر فرض نہیں کیا، اور زید بن ثابت کی یہ حدیث صرف ان لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں، بس۔’’
الكتاب: التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد
المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ)
مزید فرماتے ہیں:
قَالَ أَبُو عُمَرَ هَذَا عُمَرُ وبن عُمَرَ وَلَا مُخَالِفَ لَهُمَا مِنَ الصَّحَابَةِ فَلَا وَجْهَ لِقَوْلِ مَنْ أَوْجَبَ سُجُودَ التِّلَاوَةِ فَرْضًا لِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يُوجِبْهُ وَلَا رَسُولُهُ وَلَا اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى وُجُوبِهِ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا مِنَ الْوُجُوهِ الَّتِي ذَكَرْنَا أَوْ مَا كَانَ فِي مَعْنَاهَا وَبِاللَّهِ تَوْفِيقُنَا
ترجمہ (خلاصہ):
ابو عمر ابن عبدالبر کہتے ہیں: ‘‘یہ عمر اور ابن عمر (رضی اللہ عنہما) ہیں، اور صحابہ میں سے کوئی ان دونوں کی مخالفت کرنے والا نہیں۔ لہٰذا جو سجدہ تلاوت کو فرض واجب کہتے ہیں ان کے قول کی کوئی بنیاد نہیں، کیونکہ نہ اللہ نے اسے فرض کیا، نہ رسول نے، اور نہ ہی علماء نے اس کے وجوب پر اتفاق کیا ہے، اور فرائض صرف مضبوط دلائل سے ثابت ہوتے ہیں۔’’
الكتاب: الاستذكار
المؤلف: أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن عبدالبر کے نزدیک عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثرات پر صحابہ کا عملی اجماع قائم ہے، اس لیے سجدۂ تلاوت کے وجوب کا قول کسی معتبر اصول پر قائم نہیں رہتا۔
⑨ امام جمال الدین ابن الجوزی رحمہ اللہ کا بیان
يسْجد لِأَن الْقَارئ عَلَيْهِ مَا سجد، وَإِنَّمَا يسن سُجُود المستمع إِذا سجد الْقَارئ.
ترجمہ (خلاصہ):
‘‘(سامع) سجدہ کرے گا، کیونکہ قاری نے سجدہ کیا، اور درحقیقت مستمع کے لیے سجدہ اسی وقت سنت ہے جب قاری سجدہ کرے۔’’
الكتاب: كشف المشكل من حديث الصحيحين
المؤلف: جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
مَسَائِلُ سُجُودِ التِّلَاوَةِ
مَسْأَلَةٌ سُجُودُ التِّلَاوَةِ سُنَّةٌ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَاجِبٌ
ترجمہ:
‘‘سجدہ تلاوت کے مسائل میں سے: سجدہ تلاوت سنت ہے، اور ابو حنیفہ نے اسے واجب کہا ہے۔’’
الكتاب : التحقيق في أحاديث الخلاف
المؤلف : جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى : 597هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن الجوزی واضح طور پر بتاتے ہیں کہ سجدہ تلاوت سنت ہے، اور حنفی موقف کو الگ، منفرد رائے کے طور پر ذکر کرتے ہیں، جس سے جمہور و غیر جمہور کی تقسیم اچھی طرح سامنے آتی ہے۔
⑩ قاضی ابوالولید ابن رشد رحمہ اللہ (بداية المجتهد)
فَأَمَّا حُكْمُ سُجُودِ التِّلَاوَةِ: فَإِنَّ أَبَا حَنِيفَةَ وَأَصْحَابَهُ قَالُوا: هُوَ وَاجِبٌ، وَقَالَ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ: هُوَ مَسْنُونٌ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ.—————
ترجمہ:
‘‘جہاں تک سجدہ تلاوت کے حکم کا تعلق ہے تو ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا کہ یہ واجب ہے، اور امام مالک و امام شافعی نے کہا کہ یہ مسنون ہے اور واجب نہیں۔’’
الكتاب: بداية المجتهد ونهاية المقتصد
المؤلف: أبو الوليد محمد بن أحمد بن محمد بن أحمد بن رشد القرطبي (المتوفى: 595هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن رشد نے اختلاف کا خلاصہ کر کے صاف بتادیا کہ مالکی و شافعی دونوں ائمہ کے نزدیک سجدہ تلاوت ‘‘مسنون لا واجب’’ ہے، جبکہ وجوب کی نسبت صرف حنفیہ کی طرف کی۔
⑪ حافظ ابن عبدالہادی المقدسی رحمہ اللہ (تنقيح التحقيق)
مسائل سجود التِّلاوة
مسألة (176) : سجود التِّلاوة سُنَّةٌ.
وقال أبو حنيفة: واجبٌ.
فيقال له: لو كانت السَّجدة واجبةٌ لأمره بها.
ترجمہ:
‘‘سجدہ تلاوت کے مسائل: مسئلہ (176): سجدہ تلاوت سنت ہے، اور ابو حنیفہ نے اسے واجب کہا ہے۔ تو (حنفیہ سے) کہا جائے گا: اگر یہ سجدہ واجب ہوتا تو (شارع) اس کا صریح حکم دیتا۔’’
الكتاب : تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق
المؤلف : شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي الحنبلي (المتوفى : 744هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن عبدالہادی رحمہ اللہ اصولی نکتہ بیان کرتے ہیں کہ وجوب کے لیے صریح امر درکار ہوتا ہے، جبکہ سجدہ تلاوت کے بارے میں ایسا واضح حکم موجود نہیں، اس لیے اسے سنت کہا جائے گا، واجب نہیں۔
⑫ امام نووی رحمہ اللہ: جمہور کا واضح موقف اور دلیل
فِي مَذَاهِبِ الْعُلَمَاءِ فِي حُكْمِ سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
قَدْ ذَكَرْنَا أن مذهبنا انه سنة وليس بواجب وَبِهَذَا قَالَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَمِمَّنْ قَالَ بِهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ وَابْنُ عَبَّاسٍ وعمران بن الحصين ومالك والاوزاعي واحمد واسحق وابو ثور وداود وَغَيْرِهِمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
ترجمہ (خلاصہ):
‘‘علماء کے مذاہب میں سجدہ تلاوت کے حکم کے بارے میں: ہم ذکر کرچکے کہ ہمارا (شافعیہ کا) مذہب یہ ہے کہ یہ سنت ہے واجب نہیں، اور یہی جمہور علماء کا قول ہے، اور اس کے قائلین میں عمر بن خطاب، سلمان فارسی، ابن عباس، عمران بن حصین، مالک، اوزاعی، احمد، اسحاق، ابو ثور، داود اور دیگر رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔’’
الكتاب: المجموع شرح المهذب
المؤلف: أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ)
آگے فرماتے ہیں:
وَهَذَا الْفِعْلُ وَالْقَوْلُ مِنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي هَذَا الْمَوْطِنِ وَالْمَجْمَعُ الْعَظِيمُ دَلِيلٌ ظَاهِرٌ فِي إجْمَاعِهِمْ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ بِوَاجِبٍ
وَلِأَنَّ الْأَصْلَ عَدَمُ الْوُجُوبِ حَتَّى يَثْبُتَ صَحِيحٌ صَرِيحٌ فِي الْأَمْرِ بِهِ وَلَا مُعَارِضَ لَهُ وَلَا قُدْرَةَ لَهُمْ عَلَى هَذَا
وَقِيَاسًا عَلَى سُجُودِ الشُّكْرِ
وَلِأَنَّهُ يَجُوزُ سُجُودُ التِّلَاوَةِ عَلَى الرَّاحِلَةِ بِالِاتِّفَاقِ فِي السَّفَرِ
فَلَوْ كَانَ وَاجِبًا لَمْ يَجُزْ كَسُجُودِ صَلَاةِ الْفَرْضِ
ترجمہ (خلاصہ):
‘‘اس موقع پر عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول و فعل اور عظیم اجتماع (صحابہ) کا سکوت، واضح دلیل ہے کہ ان سب کا اس پر اجماع تھا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں۔ کیونکہ اصل عدمِ وجوب ہے، جب تک صحیح، صریح امر ثابت نہ ہو جس کا کوئی معارض بھی نہ ہو، اور ان کے پاس ایسا کچھ نہیں۔ نیز یہ سجدہ، سجدہ شکر پر قیاس ہے، اور اس لیے بھی کہ سفر میں سواری پر سجدہ تلاوت بالاتفاق جائز ہے، اگر یہ واجب ہوتا تو فرض نماز کے سجدے کی طرح سواری پر جائز نہ ہوتا۔’’
الكتاب: المجموع شرح المهذب
المؤلف: أبو زكريا محيي الدين النووي (المتوفى: 676هـ)
فقہی خلاصہ:
امام نووی رحمہ اللہ نہ صرف جمہور کے نام گنواتے ہیں بلکہ اصولی قاعدہ ‘‘الأصل عدم الوجوب’’ سے بھی استدلال کرتے ہیں، اور عملی دلیل کے طور پر سفر میں سواری پر سجدہ کے جواز کو بھی عدمِ وجوب کی شہادت قرار دیتے ہیں۔
⑬ امام ابو محمد البغوی رحمہ اللہ (تفسیر و شرح السنۃ)
قُلْتُ (7) : فَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنْ سُجُودَ التِّلَاوَةِ غَيْرُ وَاجِبٍ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكْتُبْهَا عَلَيْنَا إِلَّا أَنْ نَشَاءَ.
ترجمہ:
‘‘میں کہتا ہوں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے اسے ہمارے لیے فرض نہیں کیا، مگر یہ کہ ہم خود چاہیں۔’’
الكتاب: معالم التنزيل في تفسير القرآن = تفسير البغوي
المؤلف: محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفى: 510هـ)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
769:- قُلْتُ: فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ سُجُودَ التِّلاوَةِ غَيْرُ وَاجِبٍ، إِذْ لَوْ كَانَ وَاجِبًا، لَمْ يَتْرُكِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا حَتَّى يَسْجُدَ.
ترجمہ:
‘‘میں کہتا ہوں: اس میں دلیل ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں، کیونکہ اگر واجب ہوتا تو نبی ﷺ زید (بن ثابت) کو چھوڑ نہ دیتے، یہاں تک کہ وہ سجدہ کرلیتے۔’’
الكتاب: شرح السنة
المؤلف: محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)
فقہی خلاصہ:
امام بغوی دونوں نصوص میں واضح کر رہے ہیں کہ سجدہ تلاوت کے چھوڑ دینے پر نہ نبی ﷺ نے انکار کیا، نہ الزام لگایا، جو ترکِ واجب کے منافی ہے، اس لیے یہ محض سنت اور مستحب ہے۔
⑭ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (فتح الباری)
1077 – حَدَّثَنَا— «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ، فَمَنْ سَجَدَ، فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ، فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ»
—
وَأَقْوَى الْأَدِلَّةِ عَلَى نَفْيِ الْوُجُوبِ حَدِيثُ عُمَرَ الْمَذْكُورُ فِي هَذَا الْبَاب
ترجمہ:
‘‘اور سجدہ کے وجوب کی نفی پر سب سے قوی دلیل اسی باب میں مذکور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔’’
الكتاب: فتح الباري شرح صحيح البخاري
المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي
فقہی خلاصہ:
حافظ ابن حجر جیسا محدث و شارح صراحت کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ سجدہ تلاوت کے غیر واجب ہونے پر سب سے مضبوط دلیل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی یہی حدیث ہے، جس میں ترک پر ‘‘فلا إثم عليه’’ فرمایا گیا۔
⑮ علامہ احمد بن حجر ہیتمی شافعی رحمہ اللہ
(بَابُ فِي سُجُودِ التِّلَاوَةِ وَالشُّكْرِ) وَقَدَّمَ سُجُودَ السَّهْوِ لِاخْتِصَاصِهِ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ التِّلَاوَةِ؛ لِأَنَّهُ يُوجَدُ فِيهَا وَخَارِجَهَا وَأَخَّرَ الشُّكْرَ لِحُرْمَتِهِ فِيهَا (تُسَنُّ سَجَدَاتُ) بِفَتْحِ الْجِيمِ (التِّلَاوَةِ) لِلْإِجْمَاعِ عَلَى طَلَبِهَا وَلَمْ تَجِبْ عِنْدَنَا؛
ترجمہ (خلاصہ):
‘‘باب: سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر میں۔ انہوں نے سجدہ سہو کو نماز کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے مقدم کیا، پھر سجدہ تلاوت کو، کیونکہ یہ نماز کے اندر بھی پایا جاتا ہے اور باہر بھی، اور سجدہ شکر کو اس لیے مؤخر کیا کہ نماز میں اس کی حرمت ہے۔ (جملہ) ‘تسن سجدات التلاوة’ یعنی تلاوت کے سجدے سنت ہیں، اس پر ان کے طلب (استحباب) پر اجماع ہے اور ہمارے نزدیک واجب نہیں۔’’
الكتاب: تحفة المحتاج في شرح المنهاج
المؤلف: أحمد بن محمد بن علي بن حجر الهيتمي
فقہی خلاصہ:
ابن حجر ہیتمی شافعیہ کے متاخر بڑے فقیہ ہیں، وہ صراحتاً ‘‘تسن سجدات التلاوة’’ کہہ کر سجدہ تلاوت کو سنت شمار کرتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک واجب نہیں، البتہ طلب و استحباب پر اجماع ہے۔
⑯ ابو حفص سراج الدین ابن عادل الدمشقی رحمہ اللہ
وروى زيد بن ثابت – (رَضِيَ اللَّهُ عَنْه) – قال: قرأت على النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ – وَالنَّجْمِ فلم يسجُدْ فيها، وهذا يدل على أن سجود التلاوة غيرُ واجب، قال عمر بن الخطاب – رَضِيَ اللَّهُ عَنْه -: إن الله لم يكتبها علينا إلا أن يشاءَ وهو قولُ الشَّافِعِيِّ وأحْمَد.
ترجمہ (خلاصہ):
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ‘‘میں نے نبی ﷺ پر سورۃ النجم تلاوت کی تو آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا’’، اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘اللہ نے اسے ہم پر فرض نہیں کیا، مگر یہ کہ ہم خود چاہیں’’، اور یہی شافعی اور احمد کا قول ہے۔
الكتاب: اللباب في علوم الكتاب
المؤلف: أبو حفص سراج الدين عمر بن علي بن عادل الحنبلي الدمشقي النعماني (المتوفى: 775هـ)
فقہی خلاصہ:
ابن عادل نے زید بن ثابت کی روایت اور عمر رضی اللہ عنہ کے قول کو جمع کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ سجدہ تلاوت ‘‘غیر واجب’’ ہے، اور اسے امام شافعی و احمد کے مسلک کی نسبت سے بھی تقویت دی۔
⑰ امام محمد بن اسماعیل الصنعانی رحمہ اللہ (سبل السلام)
محمد بن اسماعیل الصنعانی (متوفی 1182ھ) نے لکھا:
[مَشْرُوعِيَّةُ سُجُودِ التِّلَاوَةِ]
وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ سُجُودِ التِّلَاوَةِ وَقَدْ أَجْمَعَ عَلَى ذَلِكَ الْعُلَمَاءُ، وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوا فِي الْوُجُوبِ وَفِي مَوَاضِعِ السُّجُودِ؛ فَالْجُمْهُورُ أَنَّهُ سُنَّةٌ، وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَاجِبٌ غَيْرُ فَرْضٍ، ثُمَّ هُوَ سُنَّةٌ فِي حَقِّ التَّالِي وَالْمُسْتَمِعِ إنْ سَجَدَ التَّالِي، وَقِيلَ: وَإِنْ لَمْ يَسْجُدْ.
ترجمہ:
‘‘(باب) سجدہ تلاوت کی مشروعیت: یہ حدیث سجدہ تلاوت کے مشروع ہونے پر دلیل ہے، اور علماء کا اس پر اجماع ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا نہیں، اور سجدہ کی جگہوں میں۔ جمہور کا قول یہ ہے کہ یہ سنت ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا: یہ واجب ہے مگر فرض نہیں، پھر (ان کے نزدیک) قاری اور سامع دونوں کے حق میں سنت ہے، اگر قاری سجدہ کرے، اور بعض نے کہا کہ اگر وہ سجدہ نہ بھی کرے تب بھی۔’’
الكتاب: سبل السلام
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن صلاح بن محمد الحسني، الكحلاني ثم الصنعاني، أبو إبراهيم، عز الدين، المعروف كأسلافه بالأمير (المتوفى: 1182هـ)
وضاحتی خلاصہ:
امام صنعانی نے تین باتیں واضح کیں:
1. سجدہ تلاوت ‘‘مشروع’’ یعنی ثابت شدہ عبادت ہے، اس کے اصل جواز پر اجماع ہے۔
2. اختلاف صرف وجوب و عدم وجوب میں ہے، اور جمہور اسے سنت کہتے ہیں۔
3. ابو حنیفہ کی رائے ‘‘واجب غیر فرض’’ کو منفرد قول کے طور پر ذکر کیا، جس سے جمہور اور حنفیہ کے مابین حدِ فاصل واضح ہو جاتی ہے۔
⑱ امام ابو بکر الشاشی القفال الشافعی رحمہ اللہ
– صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ – بَاب سُجُود التِّلَاوَة
سُجُود التِّلَاوَة سنة للقارىء والمستمع وَبِه قَالَ الْجَمَاعَة
وَقَالَ أَبُو حنيفَة سُجُود التِّلَاوَة وَاجِب فَأَما من سمع القارىء من غير اسْتِمَاع لَا يتَأَكَّد السُّجُود فِي حَقه
وَقَالَ ابو حنيفَة السَّامع والمستمع سَوَاء فِي السُّجُود
ترجمہ (خلاصہ):
‘‘باب: سجدہ تلاوت: سجدہ تلاوت قاری اور سننے والے دونوں کے لیے سنت ہے، اور جماعت (علماء) نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور ابو حنیفہ نے کہا کہ سجدہ تلاوت واجب ہے۔ البتہ جو محض سن لے، استماع (قصدِ سماع) کے بغیر، اس کے حق میں سجدہ مؤکد نہیں۔ اور ابو حنیفہ کے نزدیک سامع اور مستمع دونوں سجدہ کے حکم میں برابر ہیں۔’’
الكتاب: حلية العلماء في معرفة مذاهب الفقهاء
المؤلف: محمد بن أحمد بن الحسين بن عمر، أبو بكر الشاشي القفال الفارقي، الملقب فخر الإسلام، المستظهري الشافعي (المتوفى: 507هـ)
فقہی خلاصہ:
قفال شافعی نے ’’الجماعة‘‘ یعنی اہلِ علم کی جماعت کے قول کو ‘‘سنت’’ قرار دیا، اور حنفیہ کے وجوب کے قول کو جداگانہ و شاذ رائے کے طور پر ذکر کیا، جس سے جمہور و غیر جمہور کا فرق واضح رہتا ہے۔
جمہور کے دلائل کا مجموعی تجزیہ
1. صحابہ کرام بالخصوص سیدنا عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے صریح اقوال:
– ‘‘فمن لم يسجد فلا إثم عليه’’
– ‘‘لم يفرض السجود علينا إلا أن نشاء’’
ان میں ترکِ سجدہ پر ‘‘گناہ نہ ہونے’’ اور ‘‘عدمِ فرضیت’’ کی صاف نفی ہے۔ اگر سجدہ واجب ہوتا تو گناہ کی نفی ممکن نہ تھی۔
2. نبی کریم ﷺ کا کبھی سجدہ کرنا اور کبھی نہ کرنا (بالخصوص سورۃ النجم کے حوالے سے):
اگر سجدہ تلاوت ہر حال میں واجب ہوتا تو نبی ﷺ خود کبھی اسے نہ چھوڑتے اور صحابہ کو بھی ترک کی اجازت نہ ہوتی۔
3. ائمہ اربعہ اور متقدمین فقہاء کا واضح اختلافی نقشہ:
– مالک، شافعی، احمد اور ان کے اصحاب، اسی طرح کثیر محدثین سجدہ تلاوت کو سنت کہتے ہیں۔
– وجوب کا قول صرف ابو حنیفہ اور ان کے بعض اصحاب سے منقول ہے، جسے جمہور نے دلیل کے میزان پر مرجوح قرار دیا۔
4. اصولی قاعدہ: ‘‘الأصل عدم الوجوب حتى يثبت دليلٌ صحيحٌ صريحٌ لا معارض له’’
امام نووی، ابن عبدالبر، ابن عبدالہادی وغيرهم نے یہ قاعدہ لاگو کیا اور قرار دیا کہ ایسی قطعی دلیل سرے سے موجود ہی نہیں جو وجوب کو ثابت کرے۔
5. عملِ صحابہ اور اجماعِ سکوتی:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بڑے مجمع میں اعلان اور کسی صحابی کا انکار نہ کرنا، پھر تابعین و ائمہ کا اسی موقف پر متفق ہونا، عملی اجماع کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سجدہ تلاوت سنت و مستحب عبادت ہے، واجب نہیں۔
نتیجہ اور خلاصۂ بحث
1. سجدہ تلاوت قرآن و سنت سے ‘‘مشروع’’ اور ثابت عبادت ہے، اس کے اصل جواز و مشروعیت پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
2. جمہور محدثین، صحابہ، تابعین اور ائمہ (مالک، شافعی، احمد، اوزاعی، اسحاق، ابو ثور، داود، وغیرہ) کے نزدیک سجدہ تلاوت ‘‘سنتِ مؤکدہ’’ اور مستحب ہے، اسے چھوڑنے والا گناہ گار نہیں، البتہ ایک بڑے ثواب اور فضیلت سے محروم رہتا ہے۔
3. حنفیہ کا ‘‘واجب غیر فرض’’ کا قول ایک منفرد اور مرجوح رائے ہے، جس کے مقابلے میں صحابہ کے صریح آثار اور جمہور کی اصولی و عملی دلیلیں زیادہ قوی اور واضح ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی فرمایا کہ سجدہ کے وجوب کی نفی پر سب سے قوی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
4. محتاط اور افضل طریقہ یہ ہے کہ مسلمان قرآنِ مجید کی آیاتِ سجود پر سجدہ کرے، کیونکہ یہ سنت نبوی ﷺ اور صحابہ کا معمول ہے، لیکن اگر کسی عذر، جگہ، یا حالت کی وجہ سے سجدہ نہ کرسکے تو اپنے آپ کو گناہ گار نہ سمجھے، کیونکہ نصوص اور جمہور کی تصریحات کے مطابق یہ عمل واجب نہیں بلکہ سنت و مستحب ہے۔
اس طرح سجدہ تلاوت کو شریعت کے حقیقی مقام یعنی ‘‘سنتِ مؤکدہ’’ پر رکھتے ہوئے نہ اس کے استحباب کو کم کیا جاتا ہے اور نہ اسے فریضہ کے درجے میں لا کر لوگوں پر ایسی پابندی عائد کی جاتی ہے جس پر کتاب و سنت اور اجماعِ صحابہ سے کوئی لازمی دلیل قائم نہیں۔



















