سترہ کے اندر سے گزرنے والے کو روکنے سے متعلق صحیح احادیث
یہ تحریر محترم قاضی ابراھیم شریف کی مرتب کردہ کتاب سترہ کے مختصر احکام و مسائل سے ماخوذ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا صلى احدكم الى شيء يستره من الناس فاراد احد ان يجتاز بين يديه فليدفعه فان ابى فليقاتله فانما هو شيطان
صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب سیر دالمصلی من مر بین يديه: 509، صحیح مسلم: 259
”جب کوئی شخص ایسی چیز سامنے رکھ کر نماز پڑھے، جو اسے لوگوں سے بچائے (یعنی سترہ)، اور کوئی اس کے درمیان سے گزرنا چاہے تو نمازی کو چاہیے کہ اسے روکے، اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے، کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ:
صلي بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم الى جدر اتخذه قبلة فاقبلت بهمة تمر بين يدي النبى صلى الله عليه وسلم فما زال يدارتها ويدنو من الجدار حتى نظرت الى بطن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد لصق بالجدار ومرت من خلفه
[مسند احمد: 6852]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کو قبلہ بنا کر انہیں نماز پڑھا رہے تھے، ایک بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزرنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے روکتے رہے اور دیوار کے قریب ہوتے گئے حتیٰ کہ میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ دیوار کے ساتھ لگ گیا بالآخر وہ بکری کا بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے گزرا۔“
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ دوران جماعت مقتدی کے سامنے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے بکری کے بچے کے گزرنے کا مطلب ہوا کہ وہ پہلی صف کے نمازیوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو نمازی کے آگے سے گزرنے کو بھی منع کرتے ہیں اور امام اور مقتدیوں کے درمیان سے گزرنا بھی سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزرنا ہی سمجھتے ہیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آگیا ہے؟“ فرمایا:
لا الا ان الشيطان اراد ان يمر بين يدي فخنقته حتى وجدت برد لسانه على يدي وايم الله لولا ما سبقني اليه اخي سليمان لارتبط الى سارية من سواري المسجد حتى يطيف به ولدان اهل المدينة فمن استطاع منكم ان لا يحول بينه وبين القبلة احد فليفعل
سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشيطان للمصلي ليفسد عليه الصلاۃ 1375، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے
”نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرے سامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے ادھر ادھر گھماتے پھرتے۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے کی سمت میں کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے۔“
صحيح بخاري ميں ابن عمر رضي الله عنہما كا یہ اثر موجود ہے:
ورد ابن عمر فى التشهد وفي الكعبة وقال ان ابى الا ان تقاتله فقاتله
”اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کعبہ میں جب کہ آپ تشہد کے لیے بیٹھے ہوئے تھے سامنے سے گزرنے والے کو روک دیا تھا اور فرمایا تھا اگر وہ لڑائی پر اتر آئے تو اس سے لڑے۔“
صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب یرد المصلی من مر بین يديه
نمازی کو چاہیے کہ وہ آگے سے گزرنے والے کو کسی صورت آگے سے گزرنے نہ دے۔ یہ حکم اول نماز اور آخر نماز میں برابر ہے اور کعبہ اور غیر کعبہ میں بھی کوئی فرق نہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر پیش کیا گیا ہے کہ آپ نے تشہد کی حالت میں بھی گزرنے والے کو روکا اور بیت اللہ کے اندر نماز ادا کرتے ہوئے بھی کسی کو آگے سے گزرنے نہیں دیا۔
حالت تشہد میں روکنے سے متعلق اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (2/149) اور مصنف عبدالرزاق (2/23) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ اور ان میں وضاحت ہے کہ گزرنے والے عمرو بن دینار تھے جنہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دوران تشہد میں روکا۔ اور بیت اللہ میں نماز پڑھتے وقت روکنے کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ابو نعیم نے اپنی تالیف كتاب الصلاة میں موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیت اللہ میں نماز پڑھتے وقت کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہیں دیتے تھے۔ فتح الباری: 572/1 اور روکنے پر بعض نہ آنے والے سے لڑائی کرنے والے جملے کو امام عبدالرزاق نے اپنی تصنیف (2/20) میں موصولا ذکر کیا ہے۔
حدثنا أبو صالح السمان، قال: رأيت أبا سعيد الخدري فى يوم جمعة يصلي إلى شيء يستره من الناس، فأراد شاب من بني أبى معيط أن يجتاز بين يديه، فدفع أبو سعيد فى صدره فنظر الشاب فلم يجد مساغا إلا بين يديه، فعاد ليجتاز فدفعه أبو سعيد أشد من الأولى فنال من أبى سعيد، ثم دخل على مروان فشكا إليه ما لقي من أبى سعيد، ودخل أبو سعيد خلفه على مروان فقال: ما لك ولابن أخيك يا أبا سعيد؟ قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم، يقول: اذا صلى احدكم الى شيء يستره من الناس فاراد احد ان يجتاز بين يديه فليدفعه فان ابى فليقاتله فانما هو شيطان
[صحیح بخاری: 509]
ابو صالح سمان رحمہ اللہ نے کہا: ”میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ کسی چیز کی طرف منہ کیے ہوئے لوگوں کے لیے اسے آڑ بنائے ہوئے (سترہ کیے ہوئے) تھے۔ قبیلہ بنو ابی معیط کے ایک جوان نے چاہا کہ آپ کے سامنے سے ہو کر گزر جائے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر دھکا دے کر باز رکھا۔ جوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی راستہ سوائے سامنے سے گزرنے کے نہ ملا۔ اس لیے وہ دوبارہ اسی طرف سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اسے پہلے سے زیادہ زور سے دھکا دیا۔ اسے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے شکایت ہوئی اور وہ اپنی یہ شکایت مروان کے پاس لے گیا۔ اور اس کے پیچھے ابو سعید رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے گئے۔ مروان نے کہا: ’اے ابو سعید رضی اللہ عنہ آپ میں اور آپ کے بھتیجے میں کیا معاملہ پیش آیا؟‘ آپ نے فرمایا: ’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو سترہ بنا کر نماز پڑھے اور کوئی سامنے سے گزرنا چاہے تو اسے روک دینا چاہیے۔ اگر پھر بھی اس پر اصرار ہو تو اس سے لڑنا چاہیے۔ کیونکہ وہ شیطان ہے۔“
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک صورت معاملہ یوں ہے کہ اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزر کر اس تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان نماز کی وجہ سے قائم ہوا ہے تو نمازی کے لیے اس تعلق کو قائم رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے آگے سے گزرنے والے کو منع کرے، یعنی اسے نرمی سے متنبہ کرے۔ اگر باز نہ آئے تو سختی سے روکنے کی اجازت ہے۔ اگر وہ شارہ نہ مانے تو دھکا دے کر اسے روکا جائے لیکن اس روکنے میں دھکم پیل اور مار پیٹ کی نوبت نہیں آنی چاہیے کیونکہ ایسے اعمال نماز کے لیے باعث فساد ہیں۔ گزرنے والے کو روکنا تو نماز کی حفاظت کے لیے تھا، اگر اسے اس انداز سے روکا گیا کہ نماز ہی خراب ہو گئی تو ’گناہ لازم اور نیکی برباد‘ والی صورت پیدا ہو جائے گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے