سالی سے ناجائز تعلق اور نکاح کا حکم قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک آدمی جس کی شادی کو تقریباً 1 سال گزر گئے تھے، بعد میں وہ اپنی سالی کو لے کر کہیں چلا گیا ہے، اس بات کو تقریباً چار سال ہو گئے ہیں۔ اس کی بیوی کا سوال ہے کہ کیا اب میں نئی شادی کر سکتی ہوں، یا کہ اسی طرح بیٹھی رہوں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں آگاہ فرمائیں۔

جواب :

ہمارے معاشرے میں شرعی احکامات سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے بے اعتنائی عام ہے، لوگ بدعملی کا شکار ہیں۔ حدود اللہ سے تجاوز کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔ ستر و حجاب کی کوئی پابندی نہیں ہے، (الا ما شاء اللہ) جس کی وجہ سے برائیوں کے دروازے کھلتے ہی چلے جا رہے ہیں اور شیطنت رگ و پے میں گھستی چلی جا رہی ہے۔ جب آدمی کسی گھر میں نکاح کر لیتا ہے تو اس کے تقدس کو قائم رکھنا اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ سالیاں اور ساس وغیرہ کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ چونکہ عموماً شرعی حجاب کا خیال نہیں ہوتا اور سالیاں حجاب کے بغیر بہنوئی کے ساتھ بیٹھی گفتگو کرتی ہیں، بلکہ خلوت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے اور یہ جملہ معاشرے میں عام ہے کہ ”سالی آدھے گھر والی“ جس کے باعث شیطان نقب لگاتا ہے اور بیوی کی بجائے انسان سالی سے تعلق قائم کرنے لگ جاتا ہے۔
اولاً: ہمیں شرعی حدود کا اچھی طرح پابند ہونا چاہیے، تاکہ برائی کا دروازہ نہ کھل سکے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض و واجبات کا لحاظ کریں اور اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کریں، انھیں صاف ستھرا گھریلو ماحول فراہم کریں اور معاشرتی برائیوں کے بارے میں اپنی اولاد کی سخت نگرانی کریں اور کسی قسم کی خباثت کو اپنے گھر میں قائم نہ ہونے دیں۔ جو شخص اپنے گھر میں خباثت کو قائم رکھتا ہے وہ تو شروع میں دیوث شمار ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا ۔
مسند احمد (322/10، ح: 1180)
جب ہم لوگ اپنے گھروں میں شرعی حدود کا خیال نہیں رکھتے تو مذکورہ واقعہ جیسے حالات پیش آجاتے ہیں، جن پر بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی اور ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، لہٰذا تمام والدین کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ وہ گھریلو ماحول پاکیزہ، صاف ستھرا اور برائی سے پاک بنائیں۔
ثانیاً: جو شخص اپنی سالی کے ساتھ برائی کا ارتکاب کر بیٹھے، یا اسے کہیں بھگا کر لے جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے، اس فعل شنیع کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ جس شخص سے ایسا عمل ہو جائے اسے فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی ماننی چاہیے اور توبہ کر کے اپنے کیے ہوئے گناہ کو معاف کروانا چاہیے۔
ثالثاً: اس فعل حرام کے باعث اس کے پہلے جائز و درست نکاح پر صحیح قول کے مطابق کوئی اثر نہیں پڑتا۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
إذا زنى بأخت امرأته لم تحرم عليه امرأته
بخاري، كتاب النكاح، تحت رقم (5105)، فتح الباری (153/9)، تعليق التعليق (403/4)، ابن حجر رحمہ اللہ عکرمہ والی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: اسنادہ صحیح، فتح الباري (156/9)
”جب کسی آدمی نے اپنی اہلیہ کی بہن سے زنا کیا تو اس پر اس کی اہلیہ حرام نہیں ہوئی۔“
عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عن ابن عباس فى رجل زنى بأخت امرأته تعدى حرمة إلى حرمة ولم تحرم عليه امرأته
عبد الرزاق (201/7، ج : 12781)
”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسے آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی بیوی کی بہن سے زنا کیا کہ اس نے ایک حرمت کو دوسری حرمت کی طرف پامال کیا ہے اور اس پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوئی۔“
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
حاوز حرمتين إلى حرمة ولم تحرم عليه امرأته
ابن أبي شيبة (316/3)
”اس نے دو حرمتوں کو پامال کیا ہے اور اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوئی۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إسناده صحيح على شرط مسلم ”اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے“
إرواء الغليل (288/6)
یحییٰ بن یعمر کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ روایت میں ہے:
لا حرمتان أن يخطأهما ولا يحرمهما ذٰلك عليه
ابن أبي شيبة (30/3)، بيهقي (168/7)
”(جس شخص نے اپنی ساس یا سالی سے زنا کیا ) اس نے دو حرمتوں کو پامال کیا اور انھوں نے اس کی بیوی کو اس پر حرام نہیں کیا۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں هٰذا إسناد صحيح على شرط الشيخين” یہ سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے“ إرواء الغليل (288/6) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے برعکس بھی روایت ذکر کی جاتی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويذكر عن أبى نصر أن ابن عباس حرمه وأبو نصر هٰذا لم يعرف بسماعه من ابن عباس
صحيح البخاري مع فتح الباري (153/9)
”ابو نصر سے ذکر کیا جاتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے حرام قرار دیا ہے اور ابونصر کا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ قول سفیان ثوری نے اپنی جامع میں روایت کیا ہے
فتح الباري (156/9)، تعليق التعليق (44/4)
حارث بن عبد الرحمن بن ابی ذباب کہتے ہیں:
سألت ابن المسيب وعروة بن الزبير عن الرجل يزني بالمرأة هل تحل له ابنتها فقالا لا يحرم الحرام الحلال
(عبد الرزاق (198/7، ح : 12766))
”میں نے سعید بن المسیب اور عروہ بن الزبیر سے ایسے آدمی کے بارے سوال کیا، جو کسی عورت سے زنا کرتا ہے، کیا اس کے لیے اس عورت کی بیٹی سے نکاح حلال ہے؟ تو ان دونوں نے کہا: ”حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا۔“
یہی روایت ایک دوسرے طریق سے سنن سعید بن منصور (1721) میں بھی بسند حسن موجود ہے۔ یزید الرشک کہتے ہیں:
سألت سعيد بن المسيب عن رجل يفجر بأم امرأة فقال أما الأم فحرام وأما البنت فحلال
(ابن أبي شيبة (304/3) ط دار الفكر بيروت)
میں نے سعید بن المسیب سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو اپنی اہلیہ کی ماں سے بدکاری کرتا ہے تو انھوں نے کہا: ”ماں حرام ہے، بیٹی حلال ہے۔“
یونس بن یزید کہتے ہیں امام زہری سے ایسے آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو کسی عورت سے بدکاری کرتا ہے کہ کیا وہ اس کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے؟ تو انھوں نے کہا:
قد قال بعض العلماء لا يفسد الله حلالا بحرام
(بيهقي (199/7، ح :13968))
”بعض علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ حلال کو حرام کے ذریعے فاسد نہیں کرتا۔“
معمر بیان کرتے ہیں کہ امام زہری نے فرمایا:
إذا زنى الرجل بأخت امرأته فإنها لا تحرم عليه لا يحرم حرام حلالا
(ابن أبي شيبة (316/3))
”اگر کوئی شخص اپنی سالی سے زنا کر لے تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی، کیونکہ حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔“
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وسمى زوجها سعيد بن المسيب وعروة والزهري (صحيح البخاري، تحت الحديث (5105))
”اسے سعید بن المسیب، عروہ اور زہری نے جائز قرار دیا ہے۔“
اس سلسلہ میں چند مرفوع روایات بھی مروی ہیں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحرم الحرام الحلال
(ابن ماجه، أبواب النكاح، باب لا يحرم الحرام الحلال (2010) تاريخ بغداد (182/7) بيهقي (168/7)، دار قطني (3637))
”حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔“
یہ سند ضعیف ہے، اس میں اسحاق بن محمد الفروي ضعیف ہے۔
(تحفة تقريب التهذيب(776/1))
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يفسد الحلال بالحرام
(دار قطني (3638، 3636، 3635)، بيهقي(169/7))
”حلال کو حرام کے ذریعے فاسد نہیں کیا جائے گا۔“
اس کی سند میں عثمان بن عبد الرحمن الوقاصی ہے، امام بيهقي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تفرد به عثمان بن عبد الرحمن الواصي وهو ضعيف قاله يحيى بن معين وغيره من أئمة الحديث والصحيح عن ابن شهاب الزهري عن على رضى الله عنه مرسلا وموقوفا عنه، وعند بعض العلماء حديث عبد الله العمري أمثل والله أعلم
(بيهقي (169/7))
”اس حدیث کے بیان کرنے میں عثمان بن عبد الرحمن الوقاصی متفرد ہے اور ضعیف بھی، یہ قول یحییٰ بن معین اور دیگر ائمہ حدیث کا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت ابن شہاب الزہری کی علی رضی اللہ عنہ سے مرسل و موقوف ہے اور بعض علماء کے ہاں عبد اللہ العمري کی حدیث زیادہ عمدہ ہے واللہ اعلم۔“
عبد اللہ العمري کی روایت سے مراد اوپر ذکر کردہ ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث ہے، جس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمري ہے۔
(نیز دیکھیں فتح الباري (156/9))
حافظ ابن حجر عسقلاني رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
استاده أصلح من الأول
”ابن عمر رضی اللہ عنہما حدیث والی حدیث کی سند عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث سے زیادہ درست ہے۔“
قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محرمات کا تذکرہ کرتے ہوئے نسبی، سسرالی اور رضاعی حرام رشتے بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے:
﴿وَأَحَلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ﴾ (النساء : 24)
”اور تمھارے لیے ان کے علاوہ تمام رشتے حلال کیے گئے ہیں۔“
قرآن حکیم نے اس رشتے کو جب محرمات میں ذکر نہیں کیا تو ہمیں دور دراز کی تاویلات ذکر کر کے اسے حرام بنانے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ قرآن حکیم نے جس مصاہرت (سسرالی رشتہ) کی حرمت کا ذکر کیا ہے اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو شرعی نکاح کے بعد عمل میں آتا ہے، محض زنا کی بنا پر صحیح رشتے کو حرام قرار دینا تحکم ہے، کیونکہ بدکاری اور زنا سے حق مہر، عدت، وراثت وغیرہ جیسے احکام کا اجرا نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر عسقلاني رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”جو لوگ اسے حرام قرار دیتے ہیں جمہور ائمہ محدثین نے اس کا انکار کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت میں نکاح کا اطلاق عقد پر ہوتا ہے، بعض ولی پر نہیں اور اسی طرح زنا میں نہ حق مہر اور نہ عدت و میراث ہے۔ “
(فتح الباري (107/9))
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد أجمع أهل الفتوى من الأمصار على أنه لا يحرم على الزاني تزوج من زنى بها فتزوج أمها وبنتها أحق
(فتح الباري (157/9))
”مختلف شہروں میں بسنے والے اصحاب فتویٰ کا اس بات پر اجماع ہے کہ زانی پر اس عورت سے شادی کرنا حرام نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے زنا کیا تو اس عورت کی ماں اور بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا تو بالکل جائز ہوا۔“
مذکورہ تفصیل سے یہ بات عیاں اور واضح ہوگئی کہ جو شخص اپنی سالی کو لے کر فرار ہو گیا ہے، اس نے یہ کام تو حرام کیا ہے، لیکن اس کے اس حرام کام کرنے کی وجہ سے اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوئی، وہ بدستور اس کے نکاح میں ہے۔ اگر عورت کسی دوسرے جگہ نکاح کی خواہاں ہے تو اسے اپنے شوہر سے طلاق لے کر عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کا حق حاصل ہے۔ آدمی کو اپنے اس قبیح جرم اور ناپاک حرکت پر اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے اور سالی کو واپس چھوڑ کر اپنی زوجہ سے رجوع کرنا چاہیے۔ جو لوگ اسے حرام قرار دیتے ہیں وہ ایک روایت یہ پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نظر إلى فرج امرأة لم تحل له أمها ولا ابنتها
(ابن أبي شيبة (304/3))
”جس شخص نے کسی عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھا، اس کے لیے اس عورت کی ماں اور بیٹی حلال نہیں رہتی۔“
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں مجہول راوی ہے۔“ (فتح الباري (156/9)) امام بيهقي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا منقطع ومجهول وضعيف الحجاج بن أرطاة لا يحتج به فيما يرويه مسندا فكيف بما يرسله عمن لا يعرف والله أعلم
(السنن الكبرى (170/7))
”یہ روایت منقطع، مجہول اور ضعیف ہے، حجاج بن ارطاة اپنی بیان کردہ مسند روایات میں قابل حجت نہیں، تو پھر جو وہ غیر معروف راویوں سے مرسل بیان کرتا ہے اس میں حجت کیسے ہو سکتا ہے (واللہ اعلم)؟“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے