سائنس کی حدود اور خالق کی پہچان
تحریر: عظیم الرحمان عثمانی

سائنسی تحقیق کی حدود

سائنس ہمیشہ کسی عمل کے "کیسے” پر بات کرتی ہے، جبکہ "کیوں” کے سوال سے اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ سائنسی تحقیقات تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کام کرتی ہیں اور تخلیق کے روحانی یا غیبی پہلوؤں کو مدنظر نہیں رکھتیں۔ جب انسان اپنے اردگرد کی دنیا پر غور کرتا ہے، تو وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ کائنات کیوں وجود میں آئی؟ اس کی اصل کیا ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب سائنس یا تو نہیں دیتی یا انہیں غیرضروری کہہ کر نظر انداز کر دیتی ہے۔

مثال: گاڑی اور تاج محل

فرض کریں آپ کسی سے پوچھیں کہ یہ گاڑی کس نے بنائی؟ اور وہ جواب میں بتائے کہ پہلے انجن بنا، پھر گاڑی کی باڈی اور پھر پہیے لگے۔ اس تفصیل سے آپ کا سوال وہیں کا وہیں رہے گا۔ آپ کا مقصد صرف یہ جاننا تھا کہ گاڑی بنانے والی کمپنی کون سی ہے، مثلاً "ٹویوٹا”۔ اسی طرح اگر آپ سے پوچھا جائے کہ تاج محل کس نے بنایا؟ اور جواب میں تعمیر کے مراحل بیان کیے جائیں، تو سوال کا مقصد فوت ہوجائے گا۔

تخلیق کا سوال: خالق کون؟

ملحدین سے اگر سوال کیا جائے کہ باشعور انسان کو کس نے تخلیق کیا؟ تو وہ فوراً ارتقاء اور دیگر نظریات پیش کریں گے کہ انسان کن مراحل سے گزرا۔ لیکن سوال یہ نہیں ہے کہ تخلیق کیسے ہوئی، بلکہ یہ ہے کہ کس نے تخلیق کی؟ یہی حال کائنات کے سوال پر ہے۔ اگر پوچھا جائے کہ اس عظیم الشان کائنات کو کس نے پیدا کیا؟ تو بگ بینگ اور دیگر سائنسی نظریات پیش کر دیے جاتے ہیں، جن سے سوال کا جواب نہیں ملتا۔ یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ تخلیق کے مراحل کو بیان کرنا سوال کا جواب نہیں، کیونکہ اصل سوال خالق کے بارے میں ہے۔

سائنس کی حدود

سائنس کا دائرہ کار مادے اور توانائی تک محدود ہے۔ یہ یہ بتا سکتی ہے کہ کوئی چیز کیسے بنی، لیکن یہ سوال کہ مادہ آیا کہاں سے؟ یا توانائی کو کس نے پیدا کیا؟ اس کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ اس کا جواب وحی اور الہام کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔

فلسفیانہ دعوے اور ان کی ناکامی

اٹھارویں صدی کے ملحد فلسفیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انسان مذہب کو چھوڑ کر عقل کی بنیاد پر سچائی، حقیقت، انصاف، علم اور خوبصورتی کی وضاحت کر سکتا ہے۔ لیکن دو صدیوں کی تحقیق کے بعد یہ تسلیم کیا گیا کہ انسان اپنی عقل کی بنیاد پر ان کلیات تک نہیں پہنچ سکتا۔

انسان کی سرکشی

اس اعتراف کے بعد انسان کو اپنی علمی کمزوری تسلیم کرتے ہوئے خدا کے سامنے جھک جانا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے اپنی شکست ماننے کی بجائے سرکشی کو مزید بڑھا لیا۔ اب وہ یہ کہتا ہے کہ حقیقت، انصاف اور سچائی محض اضافی تصورات ہیں، جن کی کوئی اصل حیثیت نہیں۔ یہ دعوی دراصل انسان کی شکست کا باغیانہ اعتراف ہے۔

خدا کی رحمت

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ موت اٹل ہے، اور انسان کو اپنے خالق کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ تاہم، توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، اور اللہ تعالیٰ بہت رحیم ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1