زہد و تقویٰ کے عملی نمونے اور فتویٰ دینے کے اصول
تحریر: تنویر حسین شاہ ہزاروی

شذرات الذهب

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (متوفی ۱۱۰ھ ) کو اللہ رب العزت نے زھد وتقوی کے اس مقام رفیع و بلیغ پر فائز کیا تھا کہ اگر کوئی شخص آپ کو جعلی کرنسی دے دیتا تو آپ اسے آگے منتقل نہیں کرتے تھے بلکہ اٹھا کر ایک طرف پھینک دیتے تھے عبداللہ بن عون رحمہ اللہ (متوفی ۱۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ اگر (امام) ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس کہیں سے کھوٹا سکہ یا چاندی سے ملمع کیا ہو کھوٹا درہم آجاتا تو آپ اسے کسی دوسرے شخص کو نہیں دیتے تھے بلکہ اس کو ایک طرف پھینک ( کر رکھ ) دیا کرتے تھے ۔ جب آپ فوت ہوئے تو آپ کے پاس (گھر میں) پانچ سوکھوٹے درہم (پڑے ہوئے) تھے۔

(الطبقات الکبری لا بن سعدج ۷ ص ۲٬۲۰۱ ۲۰ و اسناده صحیح)

امام مسروق رحمہ اللہ (متوفی ۶۲ ھ) فرماتے ہیں کہ :

میں (سیدنا) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ جارہا تھا کہ ایک نوجوان نے آپ سے مسئلہ پوچھا۔ چچا جان! آپ اس (مسئلے) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا بھتیجے! کیا یہ مسئلہ ( کہیں ) واقع ہوا یعنی پیش آیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ، آپ نے فرمایا:

ہمیں اس وقت تک معاف رکھو جب تک یہ مسلہ واقع نہ ہو جائے ۔ [یعنی اس مسئلے کے وقوع کے بعد ہی ہم فتوی دے سکتے ہیں ۔ وقوع سے پہلے خیالی و فرضی مسائل پر ہم فتوے نہیں دیتے]

(سنن الدارمی ۵/۱ح ۵۴ اوسندہ صحیح)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے