زکوۃ کی رقم لائبریری یا ادارہ پر خرچ کرنے کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 399

سوال

کیا زکوۃ کی رقم کسی ایسے ادارہ یا لائبریری کو دی جاسکتی ہے جہاں سے خود بھی استفادہ حاصل کیا جاتا ہو؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن کریم نے زکوۃ کے مصارف (یعنی وہ مقامات جہاں زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے) خود بیان فرمائے ہیں۔ ان مصارف میں لائبریری شامل نہیں، لہٰذا زکوۃ کی رقم لائبریری پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔

اگرچہ قرآن مجید نے زکوۃ کے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں، جن میں ایک فی سبیل اللہ بھی ہے، لیکن اگر اس کو عام رکھا جائے تو بظاہر دینی لائبریری بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔ تاہم صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ فی سبیل اللہ کا لفظ عام نہیں بلکہ خاص معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اگر اسے عام مان لیا جائے تو باقی سات مصارف کے ذکر کی کوئی ضرورت باقی نہ رہتی، کیونکہ:

◄ فقرا
◄ مساکین
◄ عاملین علیہا
◄ مؤلفۃ قلوبہم
◄ رقاب
◄ ابن سبیل
◄ غارمین

یہ سب کے سب "فی سبیل اللہ” کے لفظ کے تحت داخل ہوجاتے۔ (غور کریں)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد عام نہیں بلکہ خاص ہے۔ اب یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ "فی سبیل اللہ” سے کیا مراد ہے؟

فی سبیل اللہ کا مفہوم

قرآن کریم کی اصطلاح میں، جیسا کہ مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محققین نے وضاحت کی ہے:

◄ وہ تمام اعمال جو براہِ راست دین و ملت کی حفاظت اور تقویت کے لیے ہوں، وہ "فی سبیل اللہ” کے کام ہیں۔
◄ دین کی حفاظت میں سب سے اہم کام دفاع ہے۔ لہٰذا اس کا اطلاق زیادہ تر اسی پر کیا جاتا ہے۔
◄ اگر دفاع کی ضرورت پیش آجائے اور امام وقت کو اس کی حاجت محسوس ہو تو زکوۃ کی مد سے اس کام پر خرچ کیا جائے گا۔
◄ بصورت دیگر دین و امت کے عمومی مصالح مثلاً:

✿ قرآن اور دینی علوم کی ترویج و اشاعت
✿ مدارس کا قیام
✿ داعیان و مبلغین کی تیاری و ترسیل
✿ امت کی ہدایت و رہنمائی کے تمام مفید ذرائع

ان پر بھی زکوۃ صرف کی جاسکتی ہے۔

اگرچہ بعض فقہاء اور مفسرین نے "فی سبیل اللہ” کی مد کو اتنا عام رکھا ہے کہ اس میں:

❀ مساجد کی تعمیر
❀ کنوؤں کی کھدائی

وغیرہ بھی داخل مانے ہیں، لیکن جیسا کہ بیان ہوا، اسے اتنا عام رکھنا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ اگر کوئی اہل علم اس پر مصر ہے تو یہ بھی درست ہے کیونکہ ایک جماعت نے یہی رائے اختیار کی ہے۔
والله اعلم بحقيقة الحال۔

ضمیمہ

مختلف مفسرین اور محققین کے اقوال و عبارات کے مطالعہ کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ:

◈ "فی سبیل اللہ” سے مراد صرف جہاد یا قتال فی سبیل اللہ نہیں ہے۔
◈ بلکہ اس سے وہ تمام کام مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت، دفاع اور کلمۃ اللہ کی بلندی کے لیے کیے جائیں۔

اس میں شامل ہیں:

➊ اللہ کی راہ میں لڑائی اور اس کے لیے اسباب، اسلحہ اور نقل و حرکت کا انتظام
➋ دین کی اشاعت کے لیے مبلغین بھیجنا اور ان پر اخراجات کرنا
➌ ان کے سفر و ضروریات کے وسائل مہیا کرنا
➍ دینی رسائل و کتب کی اشاعت
➎ مدارس کا قیام اور ان کی خدمت، کیونکہ ان اداروں میں اللہ کے دین کے دفاع اور تبلیغ کے لیے مجاہد تیار ہوتے ہیں۔

لہٰذا یہ تمام صورتیں "فی سبیل اللہ” کے دائرے میں شامل ہیں۔

لیکن چونکہ لائبریری ان میں سے کسی صورت میں شامل نہیں، اس لیے یہ "فی سبیل اللہ” کے مفہوم میں داخل نہیں۔

اگر "فی سبیل اللہ” سے عمومی مراد لینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ صرف یہی لفظ ذکر فرماتے اور آٹھ مصارف الگ الگ بیان کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ "فی سبیل اللہ” ایک خاص مد ہے، جیسا کہ محققین نے وضاحت کی ہے۔

مزید کامل علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے