ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 3 – روزہ، صدقۂ فطر اور زکوٰۃ کے مسائل – صفحہ 155
سوال
اگر کسی شخص کے پاس سونا یا چاندی گزشتہ تین یا چار سالوں سے اتنی مقدار میں موجود ہے کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے، لیکن اس نے ان سالوں میں زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ اب اسے اس کی اہمیت کا شعور ہو گیا ہے اور وہ زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہے، تو کیا اسے موجودہ نرخ (ریٹ) کے مطابق زکوٰۃ دینی ہوگی یا ان پچھلے سالوں کے نرخوں کے مطابق؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے درج ذیل طریقہ کار اختیار کیا جائے:
➊ موجودہ سال کی زکوٰۃ:
موجودہ سال کی زکوٰۃ سونے یا چاندی کی موجودہ قیمت (ریٹ) کے مطابق ادا کی جائے۔
➋ پچھلے سالوں کی زکوٰۃ:
ہر پچھلے سال کی زکوٰۃ اس متعلقہ سال کی سونے یا چاندی کی قیمت کے مطابق ادا کی جائے۔
➌ توبہ اور استغفار:
- زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر دل سے سچی توبہ اور استغفار کی جائے۔
- بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، وہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
قمری سال کا لحاظ رکھنا ضروری:
- یاد رکھیں کہ ہر سال کی زکوٰۃ سے مراد اسلامی (قمری) سال کی زکوٰۃ ہے، جو محرم سے شروع ہو کر ذوالحجہ کی آخری تاریخ تک مکمل ہوتا ہے۔
- اسی لیے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے انگریزی (شمسی) سال کا حساب نہ لگایا جائے۔
- بلکہ قمری سال کا حساب لگا کر زکوٰۃ دی جائے، جیسا کہ رمضان یا دیگر اسلامی مہینوں میں۔
- کیونکہ شمسی سال کے مقابلے میں قمری سال میں ہر 36 سال پر تقریباً ایک سال کا فرق پڑ جاتا ہے، اس لیے قمری تقویم کو ترجیح دی جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب