زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کا انجام
تحریر: عمران ایوب لاہوری

زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کا انجام
➊ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمُ سَيُطَوْقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيمَةِ [آل عمران: 180]
”جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے ، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے۔ “
➋ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ . يَوْمَ يُحْمَىٰ …..الخ [التوبة: 34 – 35]
”جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ، انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے کہ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں ، اور پہلو ، اور پیٹھیں داغی جائیں گی۔ (اور ان سے کہا جائے گا کہ ) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔“
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا لیکن اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی تو قیامت کے دن اس کا مال زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا۔ جس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گیا اور وہ اس کے گلے کا ہار ہو گا ، وہ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔
[بخارى: 1403 ، كتاب الزكاة: باب إثم مانع الزكاة]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ سے بنائے جائیں گے ، دوزخ کی آگ میں ان کو گرم کیا جائے گا پھر ان پتروں سے اس کے پہلوؤں ، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔ پچاس ہزار سال کے دن میں بندوں میں فیصلے ہونے تک جب بھی ان پتوں کو (اس کے بدن سے ) دوزخ کی جانب پھیرا جائے گا ، اس کو اس (کے جسم) کی طرف (تسلسل کے ساتھ ) لوٹانے کا عمل جاری رہے گا۔
آپ سے دریافت کیا گیا ، اے اللہ کے رسول ! اونٹوں کا (حکم) کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اونٹوں والا اونٹوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ، جب کہ اونٹوں کے بارے میں یہ حق بھی (مستحب ) ہے کہ جس دن ان کو پانی پلانے کے لیے لے جایا جائے ان کا دودھ دھو کر (فقراء ومساکین میں ) تقسیم کیا جائے تو جب قیامت کا دن ہو گا تو زکوٰۃ نہ دینے والے اونٹوں کے مالک کو (چہرے کے بل ) اونٹوں کے (پامال کرنے کے) لیے چٹیل کھلے میدان میں گرا دیا جائے گا ، اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہو گا چنانچہ اونٹ اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں کے ساتھ کاٹیں گے جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا تو پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل اس روز تک قائم رہے گا ) جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور ہر شخص اپنے مقام کو ملا حظہ کرے گا کہ وہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔
دریافت کیا گیا ، اے اللہ کے رسول ! گائے اور بکریوں کا کیا (حکم) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گائے بکریوں کا جو مالک بھی ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کو ان کے لیے چٹیل وسیع میدان میں (منہ کے بل ) گرایا جائے گا۔ جانوروں میں سے کوئی جانور غائب نہیں ہو گا ان میں خم دار سینگوں والا ، بغیر سینگوں والا اور ٹوٹے ہوئے سینگوں والا کوئی جانور نہ ہو گا۔ جانور اس کو سینگ ماریں گے اور کھروں کے ساتھ اسے پامال کریں گے جب اس پر پہلا دستہ گزر جائے گا تو اس پر آخری دستہ (اس روز تک تسلسل کے ساتھ ) گزرتا رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال ہے یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا تو ہر شخص اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا ، اے اللہ کے رسول! گھوڑوں کے بارے میں کیا (حکم) ہے؟ آپ نے فرمایا: گھوڑوں کی تین قسمیں ہیں۔ کسی شخص کے لیے گھوڑے وبال ہوں گے جبکہ بعض لوگوں کے لیے پردہ ہوں گے اور بعض کے لیے (باعث) ثواب ہوں گے۔ اُس شخص کے لیے وبال ہیں جس نے ان کو ریاء ، فخر اور مسلمانوں کی عداوت کے لیے باندھا ہوا ہے اور اُس شخص کے لیے پردہ ہوں گے جس نے ان کو فی سبیل اللہ رکھا ہوا ہے نیز ان کی پیٹھ اور ان کی گردنوں میں جو حقوق ہیں وہ ان کی ادائیگی میں غفلت نہیں کرتا اور اُس شخص کے لیے باعث اجر و ثواب ہیں جس نے ان کو اہل اسلام کے لیے فی سبیل اللہ چرا گاہ اور باغیچے میں رکھا ہوا ہے، وہ وہاں سے جو کچھ بھی چرتے ہیں تو ان کے مالک کے لیے اس کے برابر نیکیاں ثبت ہوتی ہیں اور ان کے گوبر اور پیشاب کے برابر نیکیاں ثبت ہوتی ہیں۔ اور وہ اپنی رسی کو توڑ کر جب کسی ایک ٹیلے یا دو ٹیلوں پر قوت کے ساتھ چلتے ہیں تو ان کے قدموں کے نشانات اور ان کا گوبر نیکیوں کی شکل میں تحریر ہوتا ہے اور جب بھی ان کا مالک ان کو لے کر کسی نہر کے پاس سے گزرتا ہے اور وہ نہر سے پانی پیتے ہیں حالانکہ مالک کا ارادہ ان کو پانی پلانے کا نہیں ہے تو جس قدر انہوں نے پانی پیا اس کے برابر نیکیاں ثبت ہوتی ہیں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا ، اے اللہ کے رسول! گدھوں کے بارے میں کیا (حکم) ہے؟ آپ نے فرمایا: گدھوں کے بارے میں مجھ پر اس ایک جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں ہوا (جس کا ترجمہ یہ ہے ) ”جس شخص نے ذرہ بھر نیک عمل کیا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ بھر برا عمل کیا وہ اس کو دیکھ لے گا۔“
[مسلم: 978 ، كتاب الزكاة: باب إثم مانع الزكاة ، أبو داود: 1658 ، أحمد: 162/2 ، عبد الرزاق: 6858 ، ابن مخزيمة: 2252 ، ابن حبان: 3253 ، بيهقى: 18/4]
مکلّف ایسے شخص کو کہتے ہیں جس پر شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی رقمطراز ہیں کہ علمائے اسلام نے اجماع کیا ہے کہ بلاشبہ زکوٰۃ مسلمان ، بالغ ، عاقل ، آزاد اور نصاب کے مالک پر واجب ہے۔ نیز مسلمانوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ فریضہ زکوٰۃ غیر مسلم پر لازم نہیں ہوتا۔ اگرچہ کفار اور غیر مسلم بھی تمام احکامات کے مخاطب ہیں لیکن ان سے زکوٰۃ کا مطالبہ اس لیے نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ فروعی مسائل کے مکلّف ہونے سے پہلے اسلام لانے کے مکلّف ہیں ۔
[فقه الزكاة: 95/1]
(ابن حزمؒ ) کافر سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی۔
[المحلى بالآثار: 3/4]
(ابن قدامهؒ) زکوٰۃ صرف آزاد مسلمانوں پر فرض ہے۔ آزاد ہونا اس لیے لازم ہے کیونکہ غلام مکمل مالک نہیں ہوتا اور جب تک کوئی شخص مالک ہی نہ ہو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہو سکتی ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظ هو: المغنى: 69/4 ، المجموع: 326/5 ، رد المختار: 5/2 ، بداية المجتهد: 209/1]
(شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ ، ابن حزمؒ ) غلام کے مال کی زکوٰۃ اس کے مالک پر لازم ہے۔
[المحلى بالآثار: 4/4]
عاقل و بالغ ہونے کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کیونکہ فاتر العقل پر اور بلوغت سے قبل شرعی احکام کا نفاذ نہیں ہوتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رفع القلم عن ثلثه عن النائم حتى يستيقظ وعن الغلام حتى يحتلم وعن المجنون حتي يقيق
”تین آدمیوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا: سونے والے کا تا وقتیکہ وہ بیدار نہ ہو جائے ، بچے کا جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور پاگل کا حتی کہ اسے افاقہ ہو جائے ۔“
[أحمد: 144/6 ، أبو داود: 4398 ، ابن ماجة: 2041 ، نسائي: 156/6 ، دارمي: 171/2 ، ابن الجارود: 148]
اس مسئلے میں فقہاء نے طویل اختلاف کیا ہے جسے فقہ کی ضخیم کتب میں دیکھا جاسکتا ہے ۔
[الأم للشافعي: 35/2 ، شرح المهذب: 300/5 ، الحاوى: 152/3 ، روضة الطالبين: 3/2 ، كشاف القناع: 169/2 ، سبل السلام: 183/2]
لیکن راجح بات یہ ہے کہ بچے اور فاتر العقل شخص کے مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے اور وہ کسی کے چھوٹے یا فاتر العقل ہونے سے ساقط نہیں ہوتا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ [التوبة: 103]
”ان کے مالوں سے آپ زکوٰۃ لیجیے جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں۔“
امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ :
باب إنفاق المال فى حقه
”مال کو اس کے حق میں خرچ کرنے کا بیان ۔ “
اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا حسد إلا فى اثنين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته فى الحق
”حسد (یعنی رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے ، ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اسے حق میں خرچ کرنے کی توفیق دی ۔“
[بخاري: 1409 ، كتاب الزكاة]
چونکہ مقصود غرباء و مساکین کا فائدہ کرنا ہے لٰہذا مال کسی کا بھی ہو اس سے انکا حق نکالنا لازم ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ :
تو خذ من أغنيائهم
جس سے معلوم ہوا کہ اغنیاء سے زکوٰۃ لی جائے گی ۔ اب یہ لفظ عام ہیں ان میں نابالغ اور بالغ دونوں شامل ہیں ، اسی طرح عقلمند اور مجنون بھی شامل ہیں۔ اس لیے ان کے مال میں بھی زکوٰۃ واجب ہے جبکہ اس کی ادائیگی ان کے اولیاء پر ہو گی۔
(ابن حزمؒ ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[المحلى بالآثار: 4/4 – 5]
(ابن قدامہؒ) اس کے قائل ہیں۔
[المغنى: 69/4]
(یوسف قرضاوی) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[فقه الزكاة: 119/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1