زندگی کی حقیقت اور تنہائی کا سفر: اکیلا رخصت ہونے والا مسافر
تحریر: ابو الأَسْقَع

زندگی کی دوڑ: ایک نہ ختم ہونے والا تعاقب

ہم سب اس دنیا میں ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ میں مصروف ہیں:

کوئی دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے،

کوئی شہرت کی تلاش میں ہے،

کسی کو عہدے، ڈگریاں، یا معاشرتی مقام درکار ہے۔

زندگی کا ہر دن جیسے ایک مسلسل مقابلہ بن چکا ہے —
صبح سے لے کر شام تک ہم کام، مصروفیات، ملاقاتیں، اور منصوبوں میں الجھے رہتے ہیں…
اور یہ سب کچھ ہم "کل” کے لیے کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے:
یہ "کل” آخر کب آئے گا؟
اور اگر کبھی آ بھی گیا،
تو کیا وہ کل ہمیں ہمارے اپنوں کے ساتھ لے کر آئے گا؟
جواب ہے: نہیں۔

زندگی کی سب سے بڑی ناانصافی

یہ حقیقت سب سے بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہم اپنی زندگی اُن لوگوں کے لیے قربان کر دیتے ہیں:

جو ہمارے آخری لمحے میں ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے،

جنہیں خوش کرنے کے لیے ہم اپنے قیمتی لمحات گنوا دیتے ہیں،

جن کے سامنے خود کو بہتر ثابت کرنے کے چکر میں ہم اپنا اصل وجود کھو بیٹھتے ہیں۔

اور بدلے میں جو ہمیں ملتا ہے…
وہ صرف تنہائی ہوتی ہے۔

جتنا بڑا انسان، اتنی زیادہ تنہائی

جیسے جیسے انسان بڑے مقام پر پہنچتا ہے،
ویسے ویسے وہ تنہا ہوتا جاتا ہے۔

جب ہمیں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچوں یا مخلص دوستوں کو وقت دینا چاہیے تھا، ہم "مصروف” ہوتے ہیں۔

اور جب ہم آخرکار فارغ ہوتے ہیں،
یا تو وہ لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہوتے،
یا دلوں میں فاصلے اتنے گہرے ہو چکے ہوتے ہیں کہ
وقت دینے کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہتا۔

دل دفتر بن گیا، گھر ہوٹل

ہم نے اپنے گھروں کو ہوٹل بنا دیا ہے — صرف سونے اور کھانے کی جگہ۔

دل کو ہم نے دفتر بنا لیا ہے — صرف کام، کام، اور کام۔

جذبے دبا دیے،
مسکراہٹیں چھپا لیں،
آنکھوں کو خشک رکھا…
صرف اس لیے کہ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

دوڑ کا انجام: ایک اکیلا لمحہ

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے:
اس دوڑ کا انجام کیا ہے؟

ایک دن، ایک لمحہ، ایک پل ایسا آتا ہے جب انسان بالکل تنہا ہوتا ہے:

نہ کوئی دوست،

نہ واٹس ایپ،

نہ آفس،

نہ کوئی "واہ واہ”۔

بس ایک کمرہ،
ایک بستر،
یا پھر…
ایک قبر۔
اور انسان… اکیلا۔

اکیلا رخصت ہونے والا مسافر

انسان آخرکار اس دنیا سے اکیلا ہی رخصت ہوتا ہے۔

حالانکہ ساری زندگی وہ:

لوگوں کے پیچھے دوڑتا ہے،

اپنی فیملی اور پیاروں کو نظرانداز کرتا ہے،

اپنی اصل زندگی کو وقت اور اہمیت نہیں دیتا۔

زندگی مختصر ہے، کچھ دیر رُک کر جئیں

اگر زندگی واقعی اتنی مختصر ہے،
تو آئیے… کچھ دیر کے لیے رُک جائیں۔

محبت کریں،

وقت دیں،

خلوص بانٹیں،

معاف کرنا سیکھیں۔

اور کبھی نہ بھولیں:
آخری مسافر ہم خود ہوں گے — اور اکیلے ہوں گے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1