سوال :
ایک شخص نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا اور ان کا یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، کیا اب یہ شخص اس عورت سے شادی کر سکتا ہے؟ کتاب وسنت کی رو سے واضح کریں۔
جواب :
شریعت اسلامیہ میں جن گناہوں کو کبیرہ قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ایک زنا بھی ہے۔ اگر کسی مسلمان سے یہ گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اس سے رجوع کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
(الفرقان : 68 تا 70)
”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کا قتل اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، سوائے حق کے اور نہ وہ لوگ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرتا ہے وہ اپنے کیے کی سزا بھگتے گا، قیامت کے دن اس کے لیے عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلیل ہو کر ہمیشہ رہے گا، مگر جن لوگوں نے توبہ کر لی اور ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، سو یہی وہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت زیادہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔“
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اگر آدمی زنا جیسے سنگین فعل کا مرتکب ہو جائے اور پھر اس سے خلوص دل کے ساتھ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کر لیتا ہے۔ اگر ایسے شخص کا معاملہ حاکم وقت تک نہیں پہنچا، عدالت میں پیشی نہیں ہوئی اور اس کے گناہ پر پردہ پڑ گیا تو اس پر حد نہیں ہے، اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا أولادكم ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم ولا تعصوا فى معروف فمن وفىٰ منكم فأجره على الله ومن أصاب من ذٰلك شيئا فعوقب فى الدنيا فهو كفارة له ومن أصاب من ذٰلك شيئا ثم ستره الله فهو إلى الله إن شاء عفا عنه وإن شاء عاقبه فبايعناه على ذٰلك
بخاري كتاب الإيمان، (باب) (18)، مسلم، كتاب الحدود، باب الحدود كفارات لأهلها (1709)
”مجھ سے بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے اور تم عمداً حق کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور اچھی بات میں نافرمانی نہیں کرو گے، جو کوئی تم میں سے اس عہد کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی کام کا ارتکاب کرے گا تو اگر اسے دنیا میں اسلامی حدود کے تحت سزا دی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگی اور جس نے ان امور میں سے کسی کا ارتکاب کیا، پھر اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے سزا دے تو ہم نے اس پر آپ کی بیعت کر لی۔“
یہ حدیث صراحتاً دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص زنا وغیرہ جیسے حرام کام کا مرتکب ہو جائے، پھر اس کے اس فعل پر پردہ رہ جائے اور معاملہ ظاہر ہو کر حاکم کی عدالت تک نہ پہنچے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اس پر حد کا اجرا نہیں ہوگا۔ اگر کسی دوسرے کو پتا چل جائے تو اسے بھی پردہ ڈال دینا چاہیے اور معاف کر دینا چاہیے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تعافوا الحدود فيما بينكم فما بلغني من حد فقد وجب
احمد، کتاب قطع السارق، باب ما يكون حرزا وما لا يكون (1890، 4891)، ابو داود (4376)، تلخيص المستدرك (383/4، ح : 8156)، فتح الباری (87/12) وقال صححه الحاكم وسنده إلى عمرو بن شعيب صحيح وحسنه الألباني، هداية الرواة (420/3)
”آپس میں حدود کو معاف کر دیا کرو، جو حد مجھ تک پہنچ گئی وہ واجب ہوگئی۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو حد قاضی یا حاکم تک نہیں پہنچی وہ واجب نہیں ہوئی، امام ابوداؤد نے اس حدیث پر جو عنوان قائم کیا ہے، وہ ہے: يعفى عن الحدود ما لم تبلغ السلطان ”حدود سے درگزر کرنا جو سلطان تک نہیں پہنچی۔“ اگر اس شخص کا معاملہ قاضی تک نہیں پہنچا تو اس پر حد واجب نہیں ہوئی، اس کا نکاح توبہ کرنے کے بعد ہی عورت سے ہو سکتا ہے۔ جب وہ دونوں کچی توبہ کر لیں، عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں:
كان ابن عباس يقول فى الرجل يزني بالمرأة ثم يريد نكاحها قال أول أمرها سفاح وآخره نكاح
مصنف عبد الرزاق (202/7، ج : 12785)
”عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایسے آدمی کے بارے میں فرماتے تھے جو کسی عورت سے زنا کرتا ہے، پھر اس کے ساتھ نکاح کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس کا پہلا معاملہ بدکاری و زنا ہے اور دوسرا نکاح ہے۔“
سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ یہ بیان کرتے ہیں: ”عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسے آدمی کے بارے میں فرمایا جو کسی عورت سے زنا کرے، پھر اس سے نکاح کا ارادہ رکھتا ہے کہ جب وہ دونوں توبہ کر لیں تو وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے، پہلا کام اس کا بدکاری تھا اور دوسرا نکاح ہے، پہلا حرام تھا اور دوسرا حلال“
مصنف عبد الرزاق (202/7)، بہیقی (100/7، ح : 13878، 13879)
امام ابن کثیر سورۂ نور کی آیت نمبر (3) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فأما إذا حصلت توبة فإنه يحل التزوج
”جب توبہ کر لی جائے تو نکاح حلال ہو جاتا ہے۔“
پھر دلیل کے طور پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ درج کرتے ہیں کہ ان سے ایک آدمی نے پوچھا:
إني كنت ألعب بامرأة أتى منها ما حرم الله عز وجل على فرزق الله عز وجل من ذٰلك توبة فأردت أن أتزوجها فقال أناسق إن الزاني لا ينكح إلا زانية أو مشركة فقال ابن عباس ليس هٰذا فى هٰذا إنكحها فما كان من إثم فعلي
ابن کثیر (508/4)تحقیق عبد الرزاق المهدی، تفسیر ابن أبی حاتم رازی (2521/8)
”میں ایک عورت سے حرام کام کرتا رہا ہوں، پھر اللہ نے مجھے توبہ کی توفیق عنایت کی، اب میں نے اس کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ زانی مرد صرف زانیہ یا مشرکہ سے شادی کر سکتا ہے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”یہ اس بارے میں نہیں ہے، تو اس سے نکاح کر، اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے۔“
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں:
لا بأس بذٰلك أول أمرها زنا حرام وآخره حلال
عبد الرزاق (202/7)
”اس میں کوئی حرج نہیں، اس کا پہلا معاملہ زنا حرام ہے اور دوسرا حلال ہے۔“
امام زہری اور قتادہ رحمہما اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے
مصنف عبد الرزاق (204،207/7)
امام طاؤس فرماتے ہیں:
إذا فجر الرجل بالمرأة فهو أحق بها من غيره وإذا زنى الرجل بالمرأة فعوقبت ينكحها إن شاء فإذا تابا حل له نكاحها
عبد الرزاق (207/7)
”جب کوئی شخص کسی عورت سے بدکاری کر لیتا ہے تو وہ دوسرے آدمی کی نسبت اس عورت کا زیادہ حقدار ہے اور جب کسی آدمی نے کسی عورت سے زنا کیا اور اسے کوڑے لگائے گئے، تو اگر وہ چاہے تو اس سے نکاح کر لے اور جب دونوں توبہ کر لیں تو مرد کے لیے اس عورت سے نکاح حلال ہو جاتا ہے۔“
فقہائے احناف کے ہاں بھی زانیہ سے نکاح جائز ہے، صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
وإن تزوج حاملا من زنا حل النكاح
ہدایہ، کتاب النکاح (312/2)، الجامع الصغير (ص 186)، فتح القدير، شرح الہدایہ (145/3) طبع ملتان (190/1) ط بیروت، البنایہ في شرح الہدایہ (558/4)، فتاویٰ النوازل (ص 114)
”اگر زنا سے حاملہ ہونے والی سے بھی نکاح کرے تو جائز ہے۔“
امام ابن قدامہ مقدسی رقمطراز ہیں:
وإذا وجد الشرطان حل نكاحها للزاني وغيره فى قول أكثر أهل العلم منهم أبو بكر وعمر وابنه وابن عباس وجابر وسعيد بن المسيب وطاوس وجابر بن زيد وعطاء والحسن وعكرمة والزهري والشافعي وابن المنذر وأصحاب الرأي
المغنی لابن قدامہ (564/9)
”اور جب دونوں شرطیں (انقضائے عدت اور توبہ) پائی گئیں تو اکثر اہل علم کے ہاں اس کا نکاح زانی یا اس کے علاوہ حلال ہے۔ ان میں سے ابوبکر، عمر، عبد اللہ بن عمر، ابن عباس، جابر رضی اللہ عنہم ، سعید بن المسیب، طاؤس، جابر بن زید، عطاء، حسن بصری، عکرمہ، زہری، شافعی، ابن المنذر اور اہل الرائے ہیں۔“
مذکورہ بالا دلائل، فقہاء، محدثین اور مشاہیر اسلام وغیرہ کے فتاویٰ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زانی مرد اور زانیہ عورت جب توبہ کر لیں تو اس کے بعد ان کا نکاح صحیح ہے۔ اگر عورت زنا سے حاملہ ہو تو اسے حمل کی عدت گزار کر نکاح کرنا ہوگا، اس لیے کہ دوران عدت نکاح صحیح نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾
(الطلاق : 4)
”اور حمل والی خواتین کی عدت وضع حمل ہے۔“
اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ﴾
(البقرة : 235)
”اور تم عقد نکاح اس وقت تک پختہ نہ کرو جب تک عدت پوری نہ ہو۔“
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
وقد أجمع العلماء على أنه لا يصح العقد فى مدة العدة
(ابن کثیر574/1)
”اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ دوران عدت عقد نکاح صحیح نہیں ہے۔“