زنا کی تہمت پر بیوی کا انکار اور شوہر کا رجوع نہ کرنا
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جب آدمی اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور وہ عورت اس کا اقرار نہ کرے اور نہ ہی شوہر اپنی تہمت سے رجوع کرے
لغوی اعتبار سے لعان باب لا عَنَ يُلاعِنُ (مفاعلة فعال) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”ایک دوسرے پر لعنت کرنا“ ہے۔
[المنجد: ص/ 695]
حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ لعان لعن سے مشتق ہے کیونکہ لعنت کرنے والا مرد پانچویں شہادت میں کہتا ہے کہ ”اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔“ (لعان) نام رکھنے کے لیے غضب کے علاوہ لفظِ لعن کو اس لیے اختیار کیا گیا ہے کیونکہ یہ مرد کا قول ہے اور آیت میں اس سے ابتدا کی گئی ہے اور وہ مرد بھی اس کے ساتھ ابتدا کرتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی جگانا اور دور کرنا ہے۔
[فتح الباري: 551/10]
لعان کی صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے اور اس کے پاس گواہ موجود نہیں جبکہ اس کی بیوی اس سے انکار کرتی ہے تو پھر یہ شخص عدالت یا حاکم وقت کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم اٹھا کر گواہی دیتا ہے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ کہتا ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر اس کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم اٹھا کے شہادت دیتی ہے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہتی ہے کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو۔ تب وہ حدِ زنا سے بچ جاتی ہے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ڈال دی جاتی ہے۔ اس عمل کو لعان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں جھوٹا ہونے کی صورت میں خود کو لعنت کا مستحق قرار دیتے ہیں۔
(شوکانیؒ) رقمطراز ہیں کہ لعان کی مشروعیت پر اجماع ہے۔
[نيل الأوطار: 366/4]
➊ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ‎6 وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ ‎7 وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَن تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ ‎8 وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ‎9 وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ [النور: 6 – 9]
”جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز ان کی ذات کے نہ ہو تو ان میں سے کسی ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کے کہے کہ وہ سچوں میں سے ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناََ اس کا مرد جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو۔ “
➋ حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر اپنی بیوی کی بابت بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کرایا اور پھر تفریق کرا دی ۔
[بخاري: 5259 ، كتاب الطلاق: باب من أجاز طلاق الثلاث ، مسلم: 1492 ، موطا: 566/2 ، أحمد: 336/5]
➌ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی لیکن ابھی آیات لعان نازل نہیں ہوئی تھیں۔ پھر جب آیات نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کرا دیا۔
[بخارى: 4747 ، كتاب التفسير: باب قوله: ويدرأ عنها العذاب ، ابو داود: 2254 ، ترمذي: 3179 ، ابن ماجة: 2067 ، إرواء الغليل: 2098]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی سے تین مرتبہ کہا:
الله يعلم أن أحدكـمـا كـاذب فهل منكما تائب
”اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے وہ رجوع کرے گا؟“
[بخاري: 5311 – 5312 ، كتاب الطلاق: باب صداق الملاعنة ، مسلم: 1493 ، ابو داود: 2257 ، نسائي: 177/6 ، موطا: 567/2]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ”وہ پانچویں قسم کے وقت قسم کھانے والے کے منہ پر ہاتھ رکھ دے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنها موجبة
”یہ پانچویں قسم ہلاکت و بربادی کی موجب ہے۔ “
[صحيح: صحيح ابو داود: 1975 ، كتاب الطلاق: باب فى اللعان ، ابو داود: 2255]
جب مرد اپنے آپ کو جھوٹا ہونے پر لعنت کا مستحق اور عورت خود کو جھوٹی ہونے پر غضب الٰہی کا مستحق قرار دیتی ہے تو ان دونوں کے اپنی اپنی بات پر مصر ہونے کا اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔
تو وہ مرد اس سے لعان کرے گا لٰہذا مرد اللہ کے نام سے چار شہادتیں دے گا کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے پھر عورت اللہ کے نام کے ساتھ چار شہادتیں دے گی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے گی کہ اس پر اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچا ہے۔ اگر وہ عورت حاملہ ہو یا بچہ پیدا کر چکی ہو تو بچے کے انکار کو بھی شوہر کی قسموں میں شامل کیا جائے گا پھر حاکم ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا اور وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی
جیسا کہ گذشتہ آیات ، حدیثِ عویمر عجلانی اور حدیثِ ہلال بن اُمیہ اس کا واضح ثبوت ہے۔
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی سے کہا ”تمہارا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ، تم میں سے ایک جھوٹا ہے:
لا سبيل لك عليها
”اب تمہیں تمہاری بیوی پر کوئی اختیار نہیں ۔“
[بخاري: 5312 ، كتاب الطلاق: باب قول الامام للمتلاعنين إن أحد كما كاذب ، مسلم: 1493 ، ابو داود: 2257 ، نسائي: 177/6 ، حميدي: 671]
➋ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ ”اس لعان کے بعد دو لعان کرنے والوں کے متعلق یہ طریقہ جاری ہو گیا کہ :
أن يفرق بينهما ثم لا يجتمعان أبدا
”کہ ان کے درمیان جدائی ڈال دی جاتی اور پھر کبھی وہ اکٹھے نہ ہو سکتے ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1969 ، كتاب الطلاق: باب فى اللعان ، ابو داود: 2250]
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والے میاں بیوی کے درمیان علیحد گی کرا دی۔
[بخاري: 5313 – 5314]
➍ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
المتلاعنان يفرق بينهما ولا يجتمعان أبدا
”دو لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی اور وہ کبھی اکٹھے نہیں ہوسکیں گے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: تحت الحديث / 2103 ، 188/7 ، بيهقي: 410/7]
➎ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے پہلے ہی تین طلاقیں دے دیں۔
[بخاري: 5259 ، مسلم: 1492]
انہوں نے اپنی بیوی کو لعان کے بعد تین طلاقیں اس لیے دیں کیونکہ انہیں علم نہیں تھا کہ لعان بذات خود ہمیشہ کی جدائی کا موجب ہے لہذا انہوں نے اپنی بیوی کو بذریعہ طلاق ہی اپنے لیے حرام کر دینا چاہا۔
اور بچہ صرف ماں کے حوالے کر دیا جائے گا اور جس نے اسے اس بچے کی وجہ سے تہمت لگائی وہ تہمت کی حد کا مستحق ہوگا
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرا دیا تھا پھر اس آدمی نے اپنی بیوی کے لڑکے کا انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی اور الـحـق الـولـد بـالمرأة ”لڑکا عورت کو دے دیا ۔“
[بخاري: 5315 ، كتاب الطلاق: باب يلحق الولد بالملاعنة ، ابو داود: 2259]
➋ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کرنے والوں کے بچے کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے کہ :
أنه يرث أمه وترثه أمه و من رماها به جلد ثمانين
”وہ اپنی ماں کا وارث ہو گا اور اس کی ماں اس کی وارث ہو گی اور جس نے اس بچے کی وجہ سے تہمت لگائی اسے اسی (80) کوڑے لگائے جائیں گے ۔“
[أحمد: 216/2 ، الفتح الرباني: 280]
اس کے علاوہ وہ تمام دلائل بھی اس کے مؤید ہیں جو حدِ قذف کو واجب کرنے والے ہیں اور جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بچه صرف صاحبِ فراش (یعنی بستر والے) کے لیے ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1