زمین کی پیداوار پر زکوٰۃ: بارش، نہر اور محنت سے سیراب زمین کا حکم
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 398

سوال

وہ زمین جو نہر کے پانی سے سیراب کی جائے اور وہ زمین جسے بارش کے پانی سے آباد کیا جائے، ان کی پیداوار پر کتنی زکوٰۃ فرض ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

((عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال فيما سقت السماء والعيون وكان عشريا العشور وما سقى بالنضح نصف العشر.))
صحیح البخاری: کتاب الزکوٰۃ، باب العشر فيما يسقى من ماء السماء والماء البخاري، رقم الحدیث 1483

’’یعنی آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس زمین کو بارش یا چشموں کے ذریعے پانی ملے، یا ایسے درخت ہوں جن کی جڑیں خودبخود زمین سے پانی جذب کر لیں (یعنی ان کو اوپر سے پانی دینے کی ضرورت نہ ہو)، تو ان سب کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) زکوٰۃ لاگو ہوگی۔‘‘

اور فرمایا کہ:

✿ جس زمین کو جانوروں وغیرہ کی محنت سے سیراب کیا جائے (یعنی پانی کھینچ کر پلایا جائے)، اس کی پیداوار پر نصف العشر (بیسواں حصہ) زکوٰۃ لاگو ہوگی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ:

✿ وہ زمین جو بارش سے سیراب ہو، اس کی پیداوار پر عشر (دسواں حصہ) زکوٰۃ واجب ہے۔

نہر سے سیراب ہونے والی زمین کی زکوٰۃ

اب رہا دوسرا سوال کہ وہ زمین جسے نہر کے پانی سے سیراب کیا جائے، اس کی پیداوار پر کتنی زکوٰۃ لاگو ہوگی؟
تو ظاہر ہے کہ یہ زمین بھی ان زمینوں کے حکم میں ہے جن کو محنت سے پانی فراہم کیا جائے، لہٰذا اس پر بھی نصف العشر (بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہوگی۔

وجہ

◈ شریعت اسلامیہ نے اس مسئلہ میں انسان کی محنت اور مشقت کو مدنظر رکھا ہے۔
◈ اگر زمین بغیر کسی محنت کے بارش یا چشموں سے خودبخود سیراب ہو جاتی ہے، تو اس کی پیداوار پر زیادہ زکوٰۃ (دسواں حصہ) ہے۔
◈ لیکن اگر زمین کو سیراب کرنے میں انسان کو سخت مشقت، خرچ اور محنت کرنی پڑے تو شریعت نے اس پر زکوٰۃ کی مقدار کم رکھی ہے۔

نہر کے پانی کا معاملہ

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہروں کا سسٹم نہیں تھا بلکہ زمینیں جانوروں کے ذریعے کھینچ کر پانی نکال کر سیراب کی جاتی تھیں۔ اسی لیے حدیث میں صرف انہی کا ذکر آیا ہے۔

لیکن علمائے حقہ نے نہر سے سیراب ہونے والی زمینوں کو بھی انہی کے ساتھ شامل کیا ہے، کیونکہ:

◈ نہر کی کھدائی، صفائی اور آبیانہ دینا محنت طلب اور خرچ والا کام ہے۔
◈ گویا اس میں بھی کسان کو پانی پیسوں کے ذریعے خریدنا پڑتا ہے۔
◈ اگر اس پر بھی عشر (دسواں حصہ) واجب کر دیا جائے تو یہ کسانوں کے لیے حد درجہ سختی اور ناقابل برداشت بوجھ بن جائے گا۔

جبکہ شریعت کا اصول ہے:

﴿لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾
(البقرة: 286)
’’اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘

لہٰذا ایسی زمینوں پر نصف العشر (بیسواں حصہ) زکوٰۃ لاگو ہوگی۔

علماء اہلحدیث کا موقف

◈ کافی عرصہ پہلے مولانا حافظ عبداللہ صاحب روپڑی رحمہ اللہ کے حوالہ سے اخبار "تنظیم اہلحدیث” میں بھی اسی مسئلہ پر مدلل فتویٰ شائع ہوا تھا۔
◈ موجودہ دور کی نہر سے سیراب ہونے والی زمینوں پر بھی محققین علمائے اہلحدیث نے نصف العشر (بیسواں حصہ) زکوٰۃ واجب قرار دی ہے۔
◈ دلائل کی روشنی میں یہی مسلک درست اور قوی معلوم ہوتا ہے۔

نتیجہ

➊ بارش یا چشموں سے سیراب زمین → عشر (دسواں حصہ) زکوٰۃ۔
➋ نہر یا محنت و خرچ سے سیراب زمین → نصف العشر (بیسواں حصہ) زکوٰۃ۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے