زمین بطور رہن رکھ کر کاشت کا نفع لینا جائز ہے یا نہیں؟
ماخوذ: احکام و مسائل، خرید و فروخت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 382

سوال

اگر کوئی شخص مالی ضرورت کے باعث کسی دوسرے فرد سے ایک یا دو ایکڑ زمین بطور رہن (گروی) رکھوا کر رقم حاصل کرتا ہے، اور جب وہ رقم مل جائے تو وہ اپنی زمین واپس لے کر دی ہوئی رقم لوٹا دیتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ:

اگر وہ شخص جس نے زمین بطور رہن لی تھی، اس زمین پر محنت، وقت اور پیسہ لگا کر کاشت کاری کرے اور اس سے نفع حاصل کرے (اپنے خرچ نکالنے کے بعد)، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

"دودھ دینے والا جانور اور سواری کے قابل جانور جب گروی رکھا گیا ہو تو اس کے دودھ کو پینے اور اس پر سواری کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کے بدلے خرچ کیا جائے۔”
(صحیح بخاری، کتاب الرہن)

یعنی اگر کوئی چیز گروی رکھی گئی ہو اور اس میں خرچ کیا جائے تو اس کا عوض (بدلہ) لینا جائز ہے، جیسے کہ دودھ پینا یا سواری کرنا۔

اسی اصول کے تحت:

❀ زمین وغیرہ کو بطور رہن رکھ کر، اگر رہن رکھنے والا (مرتهن) اس زمین پر اپنی محنت، وقت اور مال لگا کر کاشت کاری کرتا ہے۔
❀ اور وہ اپنے خرچ نکالنے کے بعد اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔

تو اس کا جواز اسی صورت میں ہے جب کوئی سود یا باطل طریقے سے مال حاصل کرنے کی صورت نہ ہو۔
یعنی اگر یہ معاملہ کسی قسم کے سود (ربا) یا ناجائز فائدے (اکل مال بالباطل) پر مبنی ہو تو پھر یہ ناجائز ہوگا۔

📚 حوالہ

صحیح بخاری، کتاب الرہن

✍️ نتیجہ

زمین کو بطور رہن رکھ کر اگر رہن رکھنے والا شخص اس زمین کو کاشت کرتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، تو یہ معاملہ اسی وقت جائز ہوگا جب:

❀ خرچ کے بدلے نفع لیا جا رہا ہو۔
❀ کوئی سود یا ناجائز منافع کی صورت نہ ہو۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے