زمانہ جاہلیت میں حجر اسود کی تنصیب کا فیصلہ
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

ابن سعد کہتے ہیں۔ عمارت اس حد تک پہنچی جہاں خانہ کعبہ میں رکن و نصب کرنے کا موقع تھا تو ہر قبیلے نے اس کے لئے اپنے اپنے استحقاق پر زور دیا۔ اور اس قدر مخالفت ہوئی کہ جنگ کا اندیشہ ہونے لگا آخر یہ رائے قرار پائی کہ باب بنی شیبہ سے پہلے پہل جو داخل ہو وہ حجر اسود کو اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دے۔ سب نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور اس رائے کوتسلیم کر لیا۔
باب بی شیبہ سے پہلے پہل جو اندر آئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے لوگوں نے جب آپ کو دیکھا تو بول اٹھے۔
یہ امین ہیں ہمارے معاملے میں جو فیصلہ یہ کریں گے ہم اس پر راضی ہیں۔
آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ
قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قرارداد سے اطلاع دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنی چادر بچھادی اور رکن (حجراسور) اس میں رکھ کے فر مایا:
قریش کے ہر ایک ربع سے ایک ایک شخص آئے (یعنی تمام قریش جو چار بڑی جماعتوں میں منقسم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جماعت اپنا اپنا ایک ایک قائم مقام منتخب کرے)
➊ ربع اول بن عبد مناف میں عتبہ بن ربعیہ (منتخب ہوئے)۔
➋ ربع ثانی میں ابو زمعہ۔
➌ ربع ثالث میں ابوحذیفہ بن المغيرہ۔
➍ ربع رابع میں قیس بن عدی۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم میں سے ہر فرد اس کپڑے کا ایک ایک گوشہ پکڑ لے اور سب مل کے اسے اٹھاؤ، سب نے اسی طرح اٹھایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو اسی جگہ (جہاں وہ ہے) اپنے ہاتھ سے اٹھا کر رکھ دیا۔

تحقیق الحدیث :

أسناده ضعيف .

[مستدرك حاكم 458/1 حديث رقم 1683، السيرة النبويه 116/1، مسند احمد 425/3 رقم الحديث 15589، طبقات ابن سعد جلد اول ص 205۔]
اس روایت کا تمام تر دارومدار هلال بن خباب پر ہے یہ صدوق ہے مگر آخری عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔
اس سے اس کے دو تلامذه عباد اور ابو زید روایت کرتے ہیں مگر علم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے اس سے یہ روایت اختلاط سے قبل سنی ہے یا اختلاط کے بعد۔
مستدرک حاکم کی سند میں خالد بن عرعرہ کی توثق صرف عجلی اور ابن حبان نے کی ہے اور یہ دونوں مستاہل ہیں نیز اس میں سماک بن حرب کا آخر میں حافظ خراب ہو گیا تھا۔
بعض محققین کے نزدیک اس کی سند حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔ مگر راجح قول کے مطابق حسن لغير ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔ والله اعلم۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے